دس سالہ بچی کے والدین نے اپنی بیٹی کے عجیب وغریب فوبیاز کے لیے رابطہ کیا۔جسمانی مسائل کے ساتھ ساتھ، بچی دن رات عجیب قسم کے واہموں اور وسوسوں کا شکار تھی۔ واش روم کا ڈر، تنہائی کا ڈر، کتے کا شدید خوف، پیٹ درد، گھٹن، چمونے، جوئیں وغیرہ جیسے مسائل نے بیٹی کو بہت ڈسٹرب کر رکھا تھا۔
تفصیلی کیس ڈسکشن سے درج ذیل مسائل کھل کر سامنے آئے۔
واش روم کا شدید خوف تھا۔ بچی اکیلی واش روم نہیں جاتی تھی۔ کوئی نہ کوئی اس کے پاس کھڑا رہتا تھا۔ وہ لمبے وقت کے لئے کہیں جا نہیں سکتی تھی کہ اگر وہاں واش روم جانا پڑا تو کیا ہو گا۔ واش روم کا دروازہ بند کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اکیلی نہا نہیں سکتی تھی۔ اس کی ماں اس کے ساتھ کھڑی رہتی تو ہی وہ نہاتی تھی۔
رات کوخوفزدہ رہتی تھی۔ اپنے اردگرد تکیے رکھ لیتی تھی کہ کوئی آ نہ جائے۔ کچھ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کس چیز کا خوف ہے۔ اسے لگتا تھا کہ بیڈ کے نیچے کچھ ہے۔
چھت پہ اکیلی نہیں جاتی تھی۔ وہ کہتی تھی اوپر ایک بڑی سی چھپکلی ہے جس کی ناک نہیں ہے۔
انجیکشن سے شدید خوفزدہ تھی۔ سکول میں کرونا ویکسین ٹیم آئی تو بچی نے رو رو کر آسان سر پہ اٹھا لیا۔ گھر سے والد کو بلانا پڑا۔ بچی رو رو کے نڈھال ہو گئی تھی کہ انجیکشن نہیں لگوانا ۔ جب بھی انجیکشن لگانےکی نوبت آتی ایسی ہی صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔
کتے کا خوف بہت زیادہ تھا۔ کافی دور بیٹھا کتا جو کسی اور سمت میں دیکھ رہا ہوتا تھا ،اس بچی کو ڈرانے کے لیے کافی تھا۔ یہ وہیں جم جاتی تھی اور رونا شروع کر دیتی تھی۔ اسے مطمئن کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا کہ کتا بہت دور ہے۔ اس کے رونے کے لیے یہ وجہ کافی تھی کہ دور کہیں کوئی کتا موجود ہے یا بھونک رہا ہے۔
گرج چمک کا شدیدڈر تھا۔ بارش بہت پسند تھی لیکن جیسے ہی بادل گرجتا اور بجلی چمکتی تو یہ آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتی۔ چیخنے چلانے لگتی اورٹھنڈی برف ہو جاتی۔ جب تک موسم ٹھیک نہ ہوتا والد کی گود میں دبکی ہچکیاں لیتی رہتی تھی۔
صبح صبح طبیعت بہت بوجھل ہوتی تھی۔ سینے میں گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ بھوک نہیں ہوتی تھی۔ اگر ناشتہ کروانے کی کوشش کی جاتی تو چند نوالے کھاتے ہی پیٹ میں درد شروع ہو جاتا تھا۔ اس لیے اکثر بغیر ناشتہ کیے سکول جاتی تھی۔
چمونوں کی شکائت بہت پرانی تھی۔پیٹ کے کیڑوں کی بہت سی میڈیسن استعمال ہو چکی تھیں۔ چھوٹی سی تھی جب سے پیٹ میں کیڑے تھے۔ ایلوپیتھک سیرپ ،دیسی ٹوٹکے اور ہومیوپیتھک دوائیں بھی لیں لیکن چند دن بعد چمونے اپنے مسائل کے ساتھ واپس آ جاتے تھے۔
بالوں میں جوئیں پڑ جاتی تھیں۔ اینٹی لائس شیمپو کرتے اور سارا سر صاف کرتے مگر چند ہی دنوں میں سر پھر جوؤں سے بھر جاتا تھا۔
پیشاب اور پاخانہ جل کے آتا تھا۔ کبھی کبھی یہ جلن اتنی شدید ہو جاتی تھی کہ بچی روتی تھی اور برداشت نہیں کر پاتی تھی۔
پیٹ درد کی شکائت اکثر رہتی تھی۔
رات کو منہ سے رال بہتی تھی۔ ساری رات بہت بےچین رہتی تھی۔ بیڈ کے ایک کونے پر سوتی تو دوسرے پر اٹھتی تھی۔
ہر وقت کھیلنا پسند تھا۔ سارا دن کھیل کر بھی نہیں تھکتی تھی۔ سکون سے نہیں بیٹھتی تھی۔دوڑنے والے کھیل بہت پسند تھے۔ بہت زیادہ باتونی تھی۔ دوستانہ طبیعت تھی۔ پوری کالونی میں سب اس سے واقف تھے۔ سب سے بے تکلف ہو جاتی تھی جیسے پرانی واقفیت ہو۔
روتی بہت تھی۔ جب روتی تھی تو اسے چپ کروانا بہت مشکل ہوتا تھا۔
پسند/ناپسند
پھل بہت شوق سے کھاتی تھی۔ دہی ، لسی کی شوقین تھی۔ مرغن کھانوں سے دل گھبراتا تھا ۔ انڈہ کھاتے ہی سینے میں گھٹن ہوتی تھی۔
کیس کا تجزیہ ۔ ہومیوپہتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے
بچی کے مسائل عجیب نوعیت کے تھے۔ جہاں ایک طرف اس کی دوستانہ طبیعت فاسفورس کی طرف اشارہ کرتی تھی وہیں شدید جلن اور مارننگ انگزائٹی سے دھیان سلفر کی طرف جاتا تھا۔ لیکیسس، سٹرامونیم اور کنتھیرس بھی ایسے کیس میں انڈیکیٹ ہوتی ہیں۔ علامات اس قدر پیچیدہ اور متفرق ہونے کی وجہ سے یہ کیس بیک وقت بہت آسان ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد مشکل تھا۔ فاسفورس اور سٹرامونیم سے عملاً کچھ فائدہ نہ ہو سکا۔
کیس کی مزید تفصیلات لینے پر بچی کی اپنے والد سے بے پناہ وابستگی سامنے آئی۔ بے حد لاڈ پیار کی خواہش بہت واضح تھی۔وہ اپنے بہن بھائیوں سے اپنی چیزیں شئیر کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسا کام کرتی تھی جس سے وہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے۔ مرغن کھانوں سے طبیعت بہت ڈسٹرب ہونے کا رجحان تھا۔ مسائل میں بہت زیادہ تبدیلی ہوتے رہنا بھی ایک اہم ترین علامت تھا۔ اپنے بنیادی معاملاتِ زندگی میں بھی دوسروں پر بے پناہ انحصار دراصل مستقل توجہ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا تھا۔ مزاج کی نرمی اور چھوٹی چھوٹی بات پر دل بھر آنے کا رجحان اور رونے لگ جانا بہت اہمیت کا حامل تھا۔ تنگ اور بند جگہ سے جان جاتی تھی۔مزاج اور معاملات کی اس وضاحت نے توجہ پلساٹیلا کی طرف کرنے کا سبب بنی۔
ہومیوپیتھک دوا پلساٹیلا مختلف پوٹینسی میں حسبِ ضرورت دینے سے کیس کھل گیا۔ الحمد للّٰہ چمونے اور جوؤں کا خاتمہ ہوا۔ بچی کا پیٹ درد بھی ٹھیک ہوا۔ وہ پراپر ناشتہ کرنے لگی۔ پڑھائی میں بھی دلچسپی بڑھی اور ہر وقت رونے دھونے کا مزاج تبدیل ہوا۔ درمیان میں حسبِ ضرورت و علامات وقتی مسائل کے لئے بھی دوائیاں جاری رہیں تاہم بیٹی کو واضح فائدہ پلساٹیلا دینے سے ممکن ہو پایا۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ بیٹی کے ڈر خوف اور فوبیاز واضح کم ہوئے۔ اب بچی خود واش روم چلی جاتی ہے۔ اکیلی نہا لیتی ہے۔ چھت پر چلی جاتی ہے۔ انجیکشن بہت آرام لگوا لیتی ہے اور کہتی ہے کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔ کسی وجہ سے سکول میں ویکیسین یا انجیکشن لگانے کا انتظام تھا۔ اِس نے بغیر فکر پریشانی کے انجیکشن لگوا لیا اور گھر آ کر خوشی خوشی مجھے وائس میسیج بھیج کر بتایا کہ انجیکشن لگوانے سے اب اُسے کچھ بھی تو نہیں ہوا۔
والدہ کا فیڈبیک:
میری بیٹی کو پیٹ کے کیڑوں کا مسئلہ بہت چھوٹی عمر سے تھا۔ ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک اور دیسی علاج بھی کروائے۔ دواؤں سے پاخانے میں کیڑے نکلتے بھی تھے۔ لیکن صرف وقتی فائدہ ہوتا تھا اور چمونے چند دن بعد پھر واپس آ جاتے تھے۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو اکثر پیٹ درد رہنے لگا۔پیشاب میں جلن (یو ٹی آئی) کی شکائت اکثر رہنے لگی۔سر کی جوئیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ ناشتہ بالکل نہیں کرتی تھی۔ ساری رات بیڈ پہ گھومتی رہتی تھی۔ ٹک کے ایک جگہ نہیں سوتی تھی۔ نیند میں منہ سے رال بہتی تھی۔ لیکن جن مسائل نے مجھے بے حد پریشان کر رکھا تھا وہ اس کے وہم اور ڈر خوف تھے۔
جب چھوٹی تھی تو لگتا تھا ذرا بڑی ہو گی تو ڈر دور ہو جائے گا لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھے اس کے فوبیاز بھی عجیب اور شدید ہو رہے تھے۔ سب سے بڑی پریشانی اس کا واش روم کا خوف تھا۔ وہ دس سال کی ہو گئی تھی مگر اکیلی واش روم نہیں جاتی تھی۔ مجھے اس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ میں اسے کسی کے گھر نہیں جانے دیتی تھی کہ اگر اسے وہاں واش روم جانا پڑ گیا تو کتنی شرمندگی ہو گی جب یہ کہے گی کہ کوئی میرے ساتھ چلے۔ یہ کوئی نزلہ زکام نہیں تھا کہ اینٹی بائیوٹک دیتے اور گزارا کر لیتے۔ اس کے مسائل ہی عجیب تھے اور ان کا ٹھیک ہونا اس سےبھی عجیب بات ہے
اس کے ڈر خوف کئی طرح کے تھے۔ بیڈ کے نیچے کوئی ہے۔ چھت پہ کوئی ہے۔ گرج چمک سے تو شدید ڈرتی تھی۔ جیسے ہی بادل گرجتا ساتھ ہی اس کی چیخیں بلند ہوتی جنھیں روکنا ناممکن ہوتا اور جتنی دیر موسم خراب رہتا یہ ڈری سہمی رہتی۔ انجیکشن لگواتے ہوئے بھی اس کی یہی حالت ہوتی اور اس کو قابو کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ہم سب گھر والے اس کے لیے پریشان تھے۔
ڈاکٹر حسین سےقیصرانی سے علاج کے دوران کافی اتار چڑھاؤ اور مسائل آئے۔ پیٹ کے کیڑوں کو فرق پڑ جاتا تھا مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ وہی صورت حال ہو جاتی تھی۔ تقریباً ایک سال علاج جاری رہا۔ وہ آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی۔ چمونے اور جوئیں ختم ہوئیں۔ پیٹ کا درد ٹھیک ہوا۔ وہ ناشتہ کرنے لگی۔ منہ کی رال بھی ختم ہو گئی۔ گرج چمک کا خوف کم ہو گیا۔ اب بارش کو انجوائے کرتی ہے۔ ہماری سب سے بڑی پریشانی تھی اس کا واش روم کا خوف اور وہ سب سے آخر میں ٹھیک ہوا۔ اللّہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ خود واش روم چلی جاتی ہے۔ اکیلی نہا لیتی ہے۔ اوورآل اس کی صحت بہتر ہوئی ہے۔ پڑھائی میں کارکردگی میں بھی امپروومنٹ آئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں بہت پریشان تھی۔بھلا ایک ماں ڈاکٹر سے جا کر کیا کہے ۔۔۔۔ میری بیٹی اکیلی واش روم نہیں جاتی۔۔۔۔۔ کہنا آسان ہے مگر یہ مشکل تھا۔ اور یہ بھی پتہ ہے کہ کسی ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے یہ میری خوشی کا اظہار ہے اور دوسرا ایک کوشش ہے کہ اگر کوئی اور بھی اس طرح سے پریشان ہے تو وہ جان جائے کہ علاج ممکن ہے۔
بلاشبہ بچوں کے مسائل کے لیے ڈاکٹر حسین قیصرانی بہترین چوائس ہیں۔
https://kaisrani.com/%d9%be%db%8c%d9%b9-%da%a9%db%8c%da%91%db%92-%da%86%d9%85%d9%88%d9%86%db%92-%d8%a7%d9%86%d8%af%da%be%db%8c%d8%b1%db%92-%d8%aa%d9%86%da%af-%d8%a8%d9%86%d8%af-%d8%ac%da%af%db%81-%da%88%d8%b1/
۔