Wednesday, December 16, 2020

آٹزم کیا ہے، کیوں ہوتا ہے اور علاج کی تفصیل - مکمل راہنمائی (حسین قیصرانی)

آٹزم کیا ہے، کیوں ہوتا ہے اور علاج کی تفصیل - مکمل راہنمائی

حسین قیصرانی سائیکوتھراپیسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ
 (ASD) ۔ Autism Spectrum Disorder

آٹزم ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے جس میں مریض کو بات چیت، میل جول، سوچ سمجھ اور اپنے حواس کو کنٹرول کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ آٹزم سے متاثرہ مریض کا دماغ  عام انسان کے مقابلے میں ایک مختلف طریقے پر نشوونما پاتا اور کام کرتا ہے۔ یہ دنیا کو مختلف انداز سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ آٹزم کا شکار ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اس کی علامات بھی دوسرے آٹزم بچوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ بچے یا تو ہر پل تبدیلی چاہتے ہیں یا پھر یکسانیت کو پسند کرتے ہیں اور نئے ماحول یا ہر صورتِ حال کے مطابق ڈھلنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں اور اپنی بات سمجھا نہیں پاتے۔ عام طور پر یہ  بچے دوسروں سے نظریں نہیں (poor eye contact) ملاتے۔  ان کا نام پکارا جائے تو متوجہ نہیں ہوتے اگرچہ وہ  اپنا نام سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کے زیادہ قریب آئے اور ان کو چھوئے (don’t liked to be touch)۔ یہ اپنے جذ بات کا اظہار نہیں کر پاتے۔ ان کو کچھ کام بہت آسان لگتے ہیں اور کچھ انتہائی آسان کام بہت مشکل لگتے ہیں۔ عام طور پر ایسے بچے کھلونوں سے کھیلتے نہیں ہیں بس انھیں جمع کرتے ہیں اور ایک خاص ترتیب میں رکھتے ہیں اور اس ترتیب میں تبدیلی برداشت نہیں کرتے۔ انھیں چیزوں کو گھمانا اور ان کو گھومتے ہوئے دیکھتے رہنا اچھا لگتا ہے۔ یہ بہت دیر تک بغیر اکتائے پنکھے کو گھومتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہاتھوں کو پھڑپھڑاتے (hand flapping) ہیں۔ ہاتھوں پر لرزہ بھی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی کا اظہار ہاتھوں کو پھڑپھڑا کر کرتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں کومختلف انداز میں گھما گھما کر ان سے کھیلتے ہیں۔ چلنے کے دوران ایڑھیاں اٹھا کر چلتے (toe walking)  ہیں اور سارا وزن پنجوں پر ڈال دیتے ہیں۔ کئی مرتبہ مسلسل ایک ہی لفظ کو بہت دیر تک دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں غصہ (aggressive) بہت زیادہ آتا ہے۔  کسی ایک ہی بات کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر فکر مند اور سوچوں میں رہتے ہیں یا پھر بالکل سپاٹ۔ کبھی یہ منہ سے عجیب وغریب آوازیں نکالتے ہیں تو کبھی عجیب و غریب شکلیں بناتے یعنی منہ بگاڑتے رہتے ہیں۔ منہ سے رالیں بہنا، اپنے پرائیویٹ پارٹ کو چھیڑتے رہنا، جنسی جذبات کو کنٹرول نہ کر سکنا، یکدم غصہ کرنا، چیزیں پھینکنا یا پھاڑنا یا آگ لگاتے رہنا، دانتوں سے خود کو یا دوسروں کو کاٹنا، اچانک رونے دھونے لگ جانا بھی اہم علامات ہیں۔ یہ اپنے ارد گرد کی دنیا  سے غافل نظر آ سکتے ہیں۔ دنیا سے رابطہ (socially isolated) نہیں رکھنا چاہتے۔ بعض آٹسٹک بچے ہر وقت بال کٹوانا چاہتے ہیں تو بعض کے بال یا ناخن کٹوانا بہت ایک بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ یہ کئی کئی دن ایک ہی قسم کی خوراک کھانا چاہتے ہیں۔ اگر ڈر ہو تو مکھی، مچھر، چیونٹی تک کو دیکھتے ہی چیخیں مار مار کر بھاگیں گے اور اگر ڈر نہیں ہے تو کسی بھی چیز کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ بادل کی گرج چمک، اندھیرا، روشنی، اونچی آواز سے بھی شدید قسم کا ڈر ہو سکتا ہے۔ یہ بہت زیادہ ایکٹو ہو سکتے ہیں کہ سارا دن چلتے، دوڑتے بھاگتے رہیں یا اتنے شل کمزور اور تھکے ہارے کہ کچھ بھی نہ کریں۔ 
آٹزم کا شکار سب بچے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ آٹزم سے متاثر ہے تو ضروری نہیں کہ یہ تمام علامات اس میں موجود ہوں۔ سب سے زیادہ پائی جانے والی علامات میں دیر سے بولنا (lack of speech)، دیر سے چلنا، تنہائی پسند ہونا اور حواس خمسہ (sensory issues)  کو کنٹرول نہ کر پانا ہے۔ ان بچوں کا بولنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے کا انداز عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر ایک جگہ پر پچاس آٹزم بچے ہوں تو ان سب کی علامات ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی۔

اکثر والدین یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ان کا بچہ کب تک ٹھیک ہو جائے گا؟ علاج کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا؟
درحقیقت یقینی طور پر کوئی بھی بڑے سے بڑا ڈاکٹر  اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ صرف آٹزم ہی نہیں دیگر پرانے اور شدید امراض جیسے دمہ (Asthma)، الرجی(Allergy)، چنبل (psoriasis)، گنٹھیا (Arthritis)، ہائپوتھائرائڈزم (Hypothyroidism)، ایگزیما (eczema)، مرگی (epilepsy) وغیرہ میں بھی علاج کی مدت  بتانا ممکن نہیں ہوتا۔  ہر انسان کے علاج کا دورانیہ دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ آٹزم کے پہلے لیول  (mild autism) عام طور پر ایک سے تین سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تیسرے لیول  (severe autism) کے کیسز میں پانچ سے دس سال بھی لگ سکتے ہیں۔

مکمل طور پر شفایابی ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی۔ مکمل صحت یابی کا مطلب ہے کہ بچہ بالکل ٹھیک ہو جائے۔ اگر کسی ہومیو پیتھک ڈاکٹر سے جلدی اور بروقت علاج کروایا جائے تو مائلڈ آٹزم (mild autism) میں بہت سے بچے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ دوسرے  (mild to moderate autism) اور تیسرے لیول (severe autism)  کے آٹزم کیسز میں ایک عرصے تک علاج سے ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ ہر تبدیلی مزید بہتری کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ علاج لمبا ہوتا ہے اور بہتری کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔
عام طور پر ہاتھوں اور پیروں کی حرکات میں  پہلے بہتری آتی ہے۔  بچے نارمل طریقے سے چلنے لگتے ہیں اور ہاتھوں کو بلاوجہ نہیں ہلاتے ۔نظریں ملانے (eye contact)  کا مسئلہ بھی کچھ بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر بچوں کی سمجھ بوجھ (comprehension)، بات چیت اور حسی مسائل میں بہتری آتی ہے۔ وہ سماجی طور قابل قبول حیثیت اختیار  کرنے لگتے ہیں؛ لوگوں میں گھلنے ملنے لگتا ہے۔ اس دوران دوسروں سے آنکھیں ملا کر بات کرنے میں بھی سدھار آنا شروع ہو جاتا ہے۔
جس طرح سب بچوں کی علامات ایک جیسی نہیں ہوتیں؛ اسی طرح ان کے علاج  کا دورانیہ اور نتائج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ بچوں میں کوئی ایک پہلو پہلے بہتر ہو جاتا ہے اور کچھ بچوں میں دوسرا۔ کچھ بچے پہلے چند ہفتوں میں ہی اچھا رسپانس دیتے ہیں اور کچھ بچوں میں بہتری آنے میں چند مہینے لگ جاتے ہیں۔

اگر حال ہی میں آپ کے بچے میں آٹزم کی تشخیص ہوئی ہے تو آپ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آٹزم کا کوئی جادوئی یا معجزاتی علاج دستیاب نہیں ہے۔ آپ کےبچے کے علاج کے لیے بہت سا وقت اور محنت درکار ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ آپ کو دوسری پیشہ وارانہ  تھراپی (occupation therapy) ، ABA  تھراپی  (ABA therapy) اور اسپیچ  تھراپی  (speech therapy) کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔

دل چھوٹا نہ کریں۔ بہت سے بچے مکمل طور پر بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ آٹزم کے دوسرے لیول  (mild to moderate autism) کے کیسز میں  بچے مستقبل میں ایک خودمختار زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

والدین کی ایک پریشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ میرا ہی بچہ آٹزم کا شکار کیوں ہوا؟
اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن یہ وجوہات وہ بہرحال نہیں ہوتیں جو عام طور پر بتائی جاتی ہیں یا جو والدین سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ سوچنے یا پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آخر مجھے ہی یہ کیوں ہوا یا میرے بچے کے ساتھ کیوں ہوا۔۔؟ یہ ایک بے کار سوال ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ  بیماری صرف آپ کے بچے تک محدود نہیں ہے۔ ہر اسّی (80) بچوں میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے۔

مائلڈ آٹزم (mild autism) جسے ہائی فنکشن آٹزم (high function autism) بھی کہتے ہیں، ان کیسز میں زیادہ تر بچے ذہنی طور پر بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی حرکات وسکنات میں ایسی علامات نہیں ملتی جن سے ظاہر ہو کہ بچہ ذہنی طور پر کمزور ہے یا پھر دماغ ضرورت سے زیادہ متحرک ہے۔ ان بچوں میں نظریں ملانا (eye contact) اور لوگوں کا سامنا کرنے جیسے مسائل دیر سے ظاہر ہوتے ہیں تاہم ان کی سمجھ بوجھ تقریباً نارمل ہوتی ہے۔
ہومیوپیتھی میں آٹزم کا علاج ممکن ہے اور ہومیوپیتھی میں مائلڈ آٹزم کے علاج کے بہترین نتائج (best result for mild autism in homeopathy) ملتے ہیں۔ آٹزم جتنا واضح اور شدید ہوتا ہے علاج کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے کا یقین دلانا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

آٹزم  کے علاج میں ہومیوپیتھی علاج اس وقت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جب کلاسیکل ہومیوپیتھی طریقہ علاج (Classical homeopathy treatment for autism) اپنایا جائے۔ یہ معیاری طریقہ علاج  بیماری کے اسباب اور علامات  کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس لیے مائلڈ آٹزم کے علاج کے لئے ماہر کلاسیکل ہومیوپیتھ سے کیس ڈسکس کریں۔

ہومیوپیتھی طریقہ علاج ادویات کا ایک وسیع نظام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بیماری کا علاج اس کے نام کے حوالے سے نہیں کرتا خواہ وہ آٹزم ہی ہو۔ بیماری کا نام صرف تشخیص، معائنے اور علاج کے انتخاب کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی میں محض  بیماری کے نام پر دی جانے والی دوا سے صحت یابی ممکن نہیں ہوتی۔ ایک ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر، مریض کے ہر پہلو کو مدنظر  رکھ کر دوا کا انتخاب کرتا ہے۔ دوائی علاج کا فیصلہ اسباب، موجودہ علامات اور فیملی ہسٹری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے آٹزم کے کسی مریض کے لیے موزوں ترین دوا کے انتخاب کے لیے آپ کو کلاسیکل ہومیوپیتھ (best homeopathic doctor) سے رجوع کرنا ہو گا۔ ایسا ہومیوپیتھک ڈاکٹر مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری لے گا۔ اسے ہومیوپیتھی میں کیس لینا کہتے ہیں۔ کیس ڈسکشن، درست تشخیص، علاج کا لائحہ عمل اور درست دوا کا انتخاب ایک محنت طلب اور تحقیقی معاملہ ہوتا ہے۔
ایک تجربہ کار ہومیوپیتھک ڈاکٹر کیس ڈسکشن میں مریض کے ہر چھوٹے، بڑے، ذاتی، خاندانی، ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل کے بارے میں تفصیلی معلومات لے گا۔ اس کی پسند ناپسند، کھاناپینا، ہنسنا بولنا، سونے جاگنے کی روٹین، عمومی رویے، لوگوں سے میل جول، غرض ہر معاملے میں غوروغوض کے بعد موجودہ صورت حال کے مطابق مناسب ترین دوا کا  انتخاب کرے گا۔

والدین یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا ہومیوپیتھی علاج سے مکمل  شفا مل جاتی ہے؟ کیا آٹزم  سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ مل جاتا ہے؟
تو ان کے لیے عرض ہے کہ"شفا " ایک  بہت بڑا لفظ ہے جس سے مراد صحت کی مکمل طور پر بحالی ہے۔ مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں صحت کی مکمل بحالی عام طور پر ممکن نہیں ہوتی۔ البتہ آٹزم کے مختلف مریضوں میں الگ الگ درجے کی بہتری دیکھنے میں آتی ہے جس کا انحصار وجوہات، مرض کی شدت اور معیاری ہومیوپیتھی علاج پر ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی میں آٹزم سے شفا ممکن ہے لیکن کامیابی کا تناسب ہر مریض میں مختلف ہوتا ہے۔ کچھ مریض جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور کچھ میں بہتری آنے میں بہت وقت یعنی سالوں لگ سکتے ہیں۔

ہومیوپیتھی ایک جامع طریقہ علاج ہے جو علامات کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ ہومیوپیتھی لٹریچر میں بہت سے ایسے آٹزم  کیسز کا  ذکر ملتا ہے جو صحت یاب ہوئے ہیں یا  پھر پہلے سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہومیوپیتھی سےآٹزم  کا علاج صرف تبھی ممکن ہے جب کلاسیکل طریقہ علاج سے استفادہ کیا جائے۔

یاد رکھیے! آٹزم کے نہیں بلکہ اپنے مریض کے بہترین علاج کے لیے کسی  ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

----------------------

Hussain Kaisrani
DHMS, BHMS (UoP), BSc; MS ST (University of Wales, UK),
MBA (TIU), MA (Philosophy, Urdu, Persian and Political Science)

Chief Consultant & Director
HOMEOPATHIC Consultancy,
Lahore – 53720
PAKISTAN

Email: kaisrani@gmail.com
Phone / Whatsapp: (0092) 03002000210
Websites: www.kaisrani.com
Facebook: fb.com/hussain.kaisrani

Sunday, January 26, 2020

معدہ کے مسائل، نیند کی کمی، شدید غصہ، الرجی، آسیب جن بھوت کا ڈر، خوف ۔ کامیاب علاج ۔ فیڈبیک

معدہ کے مسائل، نیند کی کمی، شدید غصہ، الرجی، آسیب جن بھوت کا ڈر، خوف ۔ کامیاب علاج ۔ فیڈبیک



فیڈ بیک
تقریباً تین ماہ قبل کی بات ہے کہ میں نے وٹس اپ (Whatsapp) پر جب محترم ڈاکٹر حسین قیصرانی سے علاج کے لئے رابطہ کیا۔ اس سے پہلے بھی میں کافی جگہوں سے علاج کروا چکا تھا۔ ہومیوپیتھی کا سٹوڈنٹ ہونے کے حوالے سے بھی کسی ڈاکٹر کا مجھے مطمئن کرنا ایک کارِ دشوار تھا۔ بہرحال قصہ مختصر میری بڑی بڑی شکایات درج ذیل تھیں:
1۔ شدید قسم کا ذہنی دباؤ (Depression / Stress) رہتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ذہن سویا ہوا ہے۔ میں بگڑے ہوئے حالات پر کڑھتا رہتا تھا۔ بیوی کی تیکھی باتوں سے شدید جذباتی دھچکا (Mental Shock) لگتا تھا اور انتہائی غصہ (Anger) آتا تھا۔ لیکن میں اپنا غصہ پی جاتا تھا لیکن بے حد بے بسی محسوس ہوتی تھی۔ معلوم نہیں کہ اب حالات بالکل بدل گئے ہیں یا پھر میں بدل گیا ہوں۔ گھر میں کوئی بھی بات ہو میں نظر انداز کر دیتا ہوں۔ اپنی بیوی کے لیے کوئی گفٹ لے کر جاتا ہوں اور اگر کوئی ناخوشگوار بات ہو تو موضوع ہی بدل دیتا ہوں۔ میں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں۔ میرے ذہن پر اب بوجھ نہیں ہوتا۔
2۔ سستی اور کاہلی اتنی تھی کہ مسلسل کئی سال سے کچھ پیپر چھوڑ رہا تھا، دے نہیں پاتا تھا۔ کتابیں سامنے پڑی ہوتی تھیں لیکن میں پڑھتا نہیں تھا۔ کام چوری میری فطرت تھی۔ لیکن الحمد للہ اب میں تمام پیپرز ایک ایک رات پڑھ کر بہترین انداز میں دے چکا ہوں۔
3۔ قوت ارادی انتہائی کمزور (Weak Will Power) تھی۔ اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہ پاتا تھا۔ پچھلے کئی سال سے میں کئی بار سگریٹ چھوڑ کر پھر شروع کر دیتا تھا اور اس پر میرا اچھا خاصا مذاق بن چکا تھا۔ مگر اب میں اس عادت سے چھٹکارا پا چکا ہوں۔
4۔ لوگوں کے بارے میں منفی میری سوچ بہت منفی (Negative Thinking) ہو گئی تھی اور دل و دماغ میں کڑھتا رہتا تھا۔ غیر متوقع رویے مجھ سے برداشت نہیں ہوتے تھے۔ کیونکہ میں تو دوسروں کے لیے خون دینے کے لیے تیار ہو جاتا اور دوسرے لوگ دس روپے دینے پر راضی نہیں ہوتے۔ مگر اب میرا رویہ مثبت ہوتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں شدت پسندی ختم ہو گئی ہے۔
5۔ طبیعت بہت وہمی تھی۔ مجھے لگتا تھا ہر کوئی میرے بارے میں کوئی غیر اخلاقی بات ہی کر رہا ہے۔ میرا سوچنے کا انداز بدل گیا ہے اور اب میں بلا وجہ بدگمان نہیں ہوتا۔
6۔ پیٹ یعنی معدہ (Stomach) کے پرانے اور دائمی مسائل کا شکار تھا۔ کبھی شدید قبض (Constipation) اور کبھی موشن اور مروڑ وغیرہ بھی مستقل جاری رہتے تھے۔ ڈکار آتے ہی رہتے تھے۔ گیس کا مسئلہ بہت زیادہ تنگ کرتا تھا۔ مگر اب یہ تکلیف %90 بہتر ہے۔
7۔ بہت جھگڑالو طبیعت تھی۔ میں غصے میں کوئی بڑا قدم اٹھا لیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے غصے سے بہت ڈر لگتا تھا؛ اس لئے غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ غصے کی حالت میں اندر ایک لاوا ابلتا رہتا تھا۔ کھانا پینا سب ڈسٹرب ہو جاتا تھا۔ کسی کے غلط رویے پر کڑھتا رہتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب میں بے فکر اور ریلیکس رہتا ہوں۔
8۔ پاوں کے نیچے بہت سے سخت چھالے (Blister) یا چنڈیاں () تھیں جن میں درد ہوتا تھا اور دبانے پر چبھن کا احساس ہوتا ہے۔ اللہ کے کرم سے اس تکلیف سے بھی جان چھوٹ گئی ہے۔
9۔ سردی کے موسم میں الرجی (Allergy) کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ زکام بہت تنگ کرتا تھا۔ پیلی، بدبودار بلغم خارج ہوتی تھی جو اتنی بڑھ جاتی تھی کہ کان بھی بہنے لگے تھے۔ مگر اس بار شدت کی سردی کے باوجود مجھے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہوا۔ الحمد للہ
10۔ موسم سرما میں زیادہ ٹھنڈا کھانے پینے سے اکثر گلا فوراً خراب (Sore Throat) ہو جاتا تھا۔ کوا سرخ ہو جاتا تھا۔ گلا سوج جاتا تھا اور تھیلیاں بن جاتی تھیں جن میں بہت تکلیف رہتی تھی۔ مگر یہ سردیاں سکون سے گزر رہی ہیں۔
11۔ رات کو سوتے وقت ایسا لگتا تھا جیسے کوئی آسیب پیچھے سے حملہ کر دے گا۔ میں خوف زدہ رہتا تھا اور پشت کو دیوار کے ساتھ لگا کر سوتا تھا یا پھر میری کوشش ہوتی تھی کہ میرا کوئی فیملی ممبر میری پشت پر موجود ہو۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس خوف سے مجھے نجات مل گئی ہے۔ اب تو رات کو قبرستان میں بھی سو سکتا ہوں کیونکہ مجھے اب بالکل بھی ڈر نہیں لگتا۔
12۔ مجھے نیند بہت کم (Sleeplessness / Insomnia) آتی تھی۔ میں تین گھنٹے سے زیادہ نہیں ہو سکتا تھا اور ان تین گھنٹوں کی نیند بھی پُر سکون اور گہری نہیں ہوتی تھی۔ میں اچھی نیند کو ترسا ہوا تھا۔ اللہ کا شکر ہے اب میں چھ گھنٹے سوتا ہوں اور جاگنے کے بعد فریش محسوس کرتا ہوں۔
13۔ میرے چہرے کی رونق بالکل ختم ہو گئی تھی۔ لیکن اب سکونِ قلب چہرے سے اطمینان کی صورت جھلکتا ہے۔
14۔ میں بہت زیادہ غائب دماغ (Absent Minded) رہنے لگا تھا جس کی وجہ سے مطالعہ نہیں ہو پاتا تھا۔ مگر اب میں ذوق و شوق سے کتابیں پڑھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری لمبی لمبی متعلقہ اور غیر متعلقہ گفتگو کو ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ بہت دلچسپی کے ساتھ سنا اور ایک ماہر آرٹسٹ کی طرح درجہ بہ درجہ میری مدد کرتے چلے گئے۔ ایک اچھے دوست اور بہترین سامع کی طرح مریض کے مسائل کو سن کر اس کو ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں۔ جسمانی مسائل کے ساتھ گزارہ کیا جا سکتا تھا لیکن ذہنی حالت کو اس طرح معجزانہ طور پر بدل دینا ہومیوپیتھی (Homeopathy) کا ہی خاصہ ہے اور ڈاکٹر حسین قیصرانی کی محنت کا کمال ہے۔ میرے الفاظ میں جو تعریف نظر آ رہی ہے وہ بہت کم ہے اور میری خواہش ہے کہ اس کو اسی طرح لوگوں تک پہنچایا جائے کیونکہ میں جانتا ہوں قیصرانی صاحب تعریف کے بہاو میں بہنے والے آدمی نہیں ہیں اور اس کو زیادہ پسند بھی نہیں کرتے۔ والسلام ۔

Related Posts