Thursday, October 20, 2016

گردے، مثانےاور پیشاب کی تکالیف کا ہومیوپیتھک علاج - حسین قیصرانی

پیٹ کے دائیں بائیں دو گردے، مثانہ اور دو نالیاں ہیں جو گردوں سے مثانہ میں کھلتی ہیں اور پیشاب خارج کرنے کی نالی، یہ نظامِ بول (Uraniry System / Renal System) کے اعضاء ہیں۔
ہاضمہ کے دوران آبی مواد گُردوں کے طرف آتا ہے۔ گُردے اسے دو نالیوں (یوریٹرز) کے ذریعے مثانہ میں پہنچاتے ہیں جہاں سے پیشاب کی نالی کے ذریعے پیشاب خارج ہو جاتا ہے۔ آبی مواد میں بھاری مواد شامل ہو تو وہ گردے میں جمع ہو جاتا ہے جو پتھری کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گردے کی پتھری چھوٹی بھی ہو سکتی ہے اور بڑی بھی۔ یہ مواد ریگ کی شکل میں بھی جمع ہو سکتا ہے۔ گردوں سے یہ پتھری یا مواد نالیوں اور مثانہ میں بھی آ سکتا ہے۔ کئی دیگر امراض اور اعضاء کی خرابیاں گردوں کو مثاثر کرتی ہیں ۔۔۔ مثلاً دل، جگر اور معدہ وغیرہ کے امراض۔ اور گردوں کے امراض کے سبب یہ اعضاء بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔ 
گردے چھننی کا کام کرتے ہیں۔ نظامِ ہاضمہ میں غذا کے ہضم و جذب ہونے کے دوران آبی مواد گردوں کو ملتا ہے تاکہ وہ اسے چھان کر مثانہ کی طرف بھیج دیں اور وہاں سے اس کا اخراج ہو جائے۔ نظام ہاضمہ میں خرابی ہوتو گردوں تک آنے والا مواد، ناقابلِ اخراج مواد بھی ساتھ لے آتا ہے جو گردوں میں جمع ہو کر ریگ یا پتھری پیدا کرتا ہے یا ویسے بھی گردوں کو نقصان پہنچاتا ہے؛ اس لئے ہاضمہ کا درست ہونا ضروری ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ گردوں کے امراض کی وجہ بننے والے مسائل کی تشخیص اور اُن کا علاج بہت ضروری ہے؛ صرف گردوں کے امراض کا علاج کرنا زیادہ دیر مفید نہیں ہو گا۔ اِس سے یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ انسانی جسم کے تمام اعضاء ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ کسی عضو کی خرابی دراصل اُسی عضو کی خرابی نہیں بلکہ اُس کے پیچھے اور اصل مسئلہ کہیں اور ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف کسی ایک عضو کو ٹھیک کر لینا مکمل صحت مندی نہیں ہے۔ مکمل صحت مندی کے لئے معاملے کو پوری گہرائی سے سمجھنا اور مریض کے تمام مسائل کو سامنے رکھ کر علاج کرنا بے حد ضروری ہے۔
ایک اَور وجہ بھی گردوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے اور وہ ہے کثرتِ جَماع ۔ اِس سے پرہیز بھی لازمی ہے۔ شراب نوشی، اَعصابی طاقتوں کی دواؤں، کُشتوں اور نسخوں کا  شدید منفی اور براہِ راست  اثر گردوں پر پڑ سکتا ہے۔
اب گردوں کے مختلف امراض اور ان کے ہومیوپیتھک علاج پر غور کرتے ہیں۔
دردِ گردہ کے عام اَمراض اور ان کی عام استعمال ہونے والی ہومیوپیتھک اَدویات مندرجہ ذیل ہیں:
دردِ گردہ عام طور پر ریگ یا پتھری کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر ورمی کیفیات کے سبب۔
پتھری بڑی نہ ہو تو اس کو خارج کرنے اوردرد کو کنٹرول کرنے کے لئے: "بربیرس ولگیرس" بائیں گردہ کے لئے جبکہ "ٹبیکم" دائیں گردہ کے لئے۔ "اوسیمم کینم" اور "لائیکوپوڈیم" دونوں گردوں کے لئے۔
کنتھیرس اور ایپس بھی دونوں گردوں کے لئے مفید ہیں۔ ان کا فرق سمجھ لینا ضروری ہے۔  گردوں یا پیشاب کی تکلیف میں اگر پیاس ہو تو کنتھیرس سے فائدہ ہوگا تاہم اگر مریض کو پیاس نہ لگ رہی ہو تو پھر ایپس کا اِستعمال مفید ثابت ہوگا۔ مثانہ کے ورم کے لئے بھی یہی دو ادویات آسان انتخاب ہیں۔ مثانہ کی پتھری کے لئے میں نے "سارسپیریلا" کو بہت مفید پایا ہے۔ 
چھوٹے بچےبعض اوقات پیشاب کرنے سے پہلے اور کرنے کے دوران چیخیں مار کر روتے ہیں؛ اُن کے علاج کے لئے اکثر کتابوں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز نے "سارسپیریلا" ہی تجویز کی ہے تاہم مجھے ابھی تک اِسے آزمانے کا موقع نہیں ملا۔ میرے تجربے میں اِس مقصد کے لئے "ایکونائٹ" بہت مفید رہی ہے بلکہ "ایکونائٹ" کبھی بھی ناکام نہیں ہوئی۔ پتھری اگر پیشاب کی نالیوں میں اٹک جائے تو "بربیرس ولگیرس" بائیں نالی کے لئے اور "ٹبیکم" دائیں نالی کے لئے مفید ہیں۔
پیشاب بند ہو جائے تو "ٹیرنبنتھینا" کا اِستعمال اِس مسئلہ کو حل کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے۔
گردے کام کرنا چھوڑ دیں تو "زنجی بیرس" کو آزمانا چاہئےتاہم اگر سکڑ جائیں تو پھر "فاسفورس" بہترین دوا ہے۔
بچوں (اور بعض اوقات بڑوں کا بھی) سوتے میں بستر پر پیشاب کردینا ایک نہایت اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اِس کے علاج کے لئے مریض کے  اصل مسئلہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ایک باقاعدہ مضمون ہے جسے ہم کسی اَور نشست پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
یہ ادویات اور تفصیلات راہنمائی کے لئے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بے شمار ہومیوپیتھک ادویات گردوں، پیشاب یا مثانہ کی تکالیف کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ مریضوں کے لئے ضروری ہے کہ صحیح دوائی، اُس کی پوٹینسی (طاقت) اور خوراک کے اِنتخاب کے لئے اپنے اعتماد کے کلاسیکل ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے اپنا کیس تفصیلاً ڈسکس کریں۔
(حسین قیصرانی، بحریہ ہومیوپیتھک سفاری ولاز بحریہ ٹاون لاہور۔ فون 03002000210)

Wednesday, October 19, 2016

ڈپریشن کی ادویات کے مضر اثرات نے زندگیاں تباہ کر دیں



مستقل افسردگی (ڈپرپشن) میں مبتلا مریضوں نے کہا ہے کہ ان کو دی جانے والی ادویات کے مضر اثرات نے ان کی زندگیاں تباہ کر کے رکھ دی ہیں۔
بعض مریضوں کے مطابق ان کے اندر خودکشی کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک مریضہ کلیئر ہینلی نے بی بی سی کو بتایا: 'مجھے مرگی جیسے دورے پڑنے لگے، میرے پٹھے خود بخود پھڑکنے لگتے تھے۔ دو ہفتوں کے اندر اندر میں نے دو بار اپنی جان لینے کی کوشش کی۔'
کلیئر نے 20 برس قبل اینٹی ڈپریسنٹ ادویات استعمال کی تھیں لیکن ان کا اثر ابھی تک زائل نہیں ہوا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سو میں سے ایک مریض کو ایک خاص قسم کی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ایس ایس آر آئی کے شدید مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ادویات دماغ میں سیریٹونن نامی مادے کی مقدار بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، جس سے ڈپریشن کی علامات میں کمی واقع ہوتی ہے۔
تاہم بعض ماہرین کے مطابق ان ادویات کے پہلے کے اندازے سے زیادہ لوگوں پر شدید مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بینگور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ہیلی کا خیال ہے کہ یہ ادویات 'چار میں سے ایک مریض کے اندر اور زیادہ بےچینی پیدا کر دیتی ہیں۔ اس سے کچھ لوگ ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کہ دوسروں میں خودکشی کے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔'
ادویات بنانے والے کمپنیوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن ویسٹ لنڈن کی ڈاکٹر سارا جارویس کہتی ہیں کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ڈپریشن کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر ہیں اور اگر ایسے مریضوں کا علاج نہ کیا جائے تو اس سے ان پر تباہ کن اثرات پڑ سکتے ہیں۔
'میرے خیال سے شدید ڈپریشن کا شکار مریضوں کو دو تین مختلف ادویات آزمانا پڑتی ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ان کے لیے کون سی زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کو ایسی ادویات سے مدد ملتی ہے اور ان کا فائدہ نقصانات سے زیادہ ہوتا ہے۔'
لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مضر اثرات اس وقت بھی سامنے آتے ہیں جب کوئی ان کی خوراک کم کرنے کی کوشش کرے۔ 'بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھیں خوراک کم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اگر وہ علاج روک دیں تو ان میں سخت ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور وہ خودکشی پر مائل ہو سکتے ہیں۔'
ایک اور مریضہ جیما کہتی ہیں کہ دوا چھوڑنے کے بعد ان پر اتنا شدید اثر ہوا کہ انھیں وہ دوا دوبارہ لینا پڑی۔ 'میں مصیبت کا شکار ہو گئی۔ میں ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئی کہ میری زندگی حرام ہو گئی۔ میں شدید ہیجان میں تھی۔ میں ہر وقت تشویش کا شکار رہتی تھی اور میری نیند بالکل اڑ گئی تھی۔'
جب جیما نے دوبارہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینا شروع کیں تو یہ علامات یک لخت دور ہو گئیں۔
ڈاکٹر جارویس کہتی ہیں کہ مریضوں کی ایک قلیل تعداد کو ایسے اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 'اگر آپ ان ادویات کے معلوماتی پرچے دیکھیں تو ان میں لکھا ہوتا ہے کہ سو میں سے ایک مریض پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک شخص ان کا مریض بھی ہو سکتا ہے۔'

بشکریہ: بی بی سی 

Friday, October 7, 2016

اینٹی بایوٹکس کے نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت .ظفر سید.

جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مقالے کے مطابق پاکستان میں اینٹی بایوٹکس کا غلط استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اسے روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی اشد ضرورت ہے۔
تحقیق کار ڈاکٹر اعجاز اے خان نے لکھا ہے کہ پاکستان میں یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے کہ اس کے حل کے لیے معاشرے کے مختلف طبقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، جن میں حکومت، ڈاکٹر، فارماسیوٹیکل کمپنیاں، فارماسسٹ، میڈیکل سٹور اور مریض شامل ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مدافعت رکھنے والے جراثیم کے ہاتھوں دنیا بھر میں سات لاکھ کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لیکن 2040 تک یہ تعداد بڑھ کر 30 کروڑ ہو جائے گی اور اس پر آنے والی لاگت ایک ہزار کھرب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
پاکستان میں اس سلسلے میں نہ تو درست اعداد و شمار موجود ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو اس مسئلے پر نظر رکھ رہا ہو۔ البتہ ایسی تحقیقات موجود ہیں جن سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر: پاکستان میں اکثر ڈاکٹر بلاضرورت اینٹی بایوٹکس ادویات تجویز کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں بین الاقوامی سفارشات کا خیال نہیں رکھتے۔ پشاور میں ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ڈاکٹروں کا ایک بھی نسخہ معیار کے مطابق نہیں تھا۔
فارماسیوٹیکل کمپنیاں: پاکستان میں ضرورت سے زیادہ یعنی 50 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں، ان کی تشہیر کا 18 فیصد حصہ 'بلاجواز اور گمراہ کن' ہے، جب کہ صرف 15 فیصد تشہیری بروشر ڈبلیو ایچ او کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔
میڈیکل سٹور: پاکستان میں کوئی بھی شخص جا کر میڈیکل سٹور سے کسی بھی قسم کی ادویات بغیر ڈاکٹری نسخے کے لوگوں کو ادویات دے دیتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو اپنا علاج خود کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
عوام: ڈاکٹر اعجاز کہتے ہیں کہ اکثر اوقات معمولی زکام، بخار یا کھانسی ہوتے ہی لوگ اینٹی بایوٹک کھانا شروع کر دیتے ہیں اور جونہی ذرا سا افاقہ ہو، چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ سارے عوامل جراثیم کے اندر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ چند برس قبل برطانوی طبی جریدے لانسٹ میں ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ انڈیا اور پاکستان میں جراثیم کی ایسی نسلیں پنپ رہی ہیں جن پر دو کو چھوڑ کر باقی تمام اینٹی بایوٹکس بےاثر ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں آگاہی پھیلانے کے لیے قومی سطح پر مہم چلائی جانی چاہیے، جس میں تمام شعبوں کو شامل کیا جائے۔
Image copyrightافعت بڑھ رہی ہے
انھوں نے کہا کہ 'عام طور پر بخار خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس کے لیے نہ تو ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اینٹی بایوٹک استعمال کرنے کی۔ لیکن اگر بلاضرورت اینٹی بایوٹک استعمال کی جائیں تو ایسے جراثیم وجود میں آ سکتے ہیں جن پر بعد میں وہ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ 'یہی وجہ ہے کہ چند برس قبل جن جراثیم کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا تھا، ان پر اب یا تو اینٹی بایوٹکس بالکل ہی بےاثر ہو گئی ہیں یا پھر ان کے لیے سیکنڈ لائن ادویات کی ضرورت پڑتی ہے جو انتہائی مہنگی ہیں۔ وہی بیماری جو چند سو روپوں میں ٹھیک ہو سکتی تھی، اب اس کے علاج پر کئی ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کو آگے آ کر اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے، کیونکہ بغیر واضح پالیسی کے اس مسئلے پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسئلہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ جانوروں اور مرغیوں میں بھی بےتحاشا اینٹی بایوٹکس دی جا رہی ہیں، جن کی وجہ سے مدافعت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے اس پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اُردو)۔)