ایسی علامات
جنہیں ایک ایلوپیتھ درخورِ اِعتنا نہیں سمجھتا لیکن ایک ہومیوپیتھ اِنہیں قدر کی
نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مثلاً اسہال میں مبتلامریض کا بیان، مجھے شدید پیاس لگتی ہے
اور جوں ہی پانی پیتا ہوں کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی واش روم جانے کی
حاجت ہوتی ہے، ایک ایلوپیتھ کے نزدیک چنداں اہمیت کا حامل نہیں۔
(کیپسیکم)
گردے
فیل مریض ۔۔ جو عموماً اختلاجِ قلب، تنگئ تنفس اور استقائی سوجن کا شکار ہوتا ہے
۔۔ اگر یہ کہے کہ میرا چکناہٹ کھانے کو جی کرتا ہے، پیشاب ٹھنڈا اور تیز بُو والا
آتا ہے تو مریض کا یہ بیان شاید ایلوپیتھ کے علم و تشخیص میں کوئی اضافہ نہ کر سکے
لیکن ہومیوپیتھ کے لیے گراں قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
(نائٹرک ایسڈ)
دمہ میں مبتلا مریض جب
ایلوپیتھک ڈاکٹر کو یہ بتا کر اُس کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے کہ اگر میں سجدے
کی حالت میں چلا جاؤں تو سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے تو وہ بےاختیار مسکرا اٹھتا
ہے لیکن ایک ہومیوپیتھ ایسی علامت پا کرمطمئن ہو جاتا ہے کہ درست سمت میں رہنمائی
ہو گئی۔ (میڈورینم)۔
کینتھرس کے مریض کا بیان کہ سرِذَکر کو دبانے سے درد گردہ کم ہو جاتا ہے ایلوپیتھ کے نزدیک بے سروپا ہو سکتاہے لیکن ایک ہومیوپیتھ اسے موتی سمجھ کر چُن لیتا ہے۔ایسی علامات اُس کے نزدیک نشانِ راہ ہیں جو منزل کا پتا دیتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment