Thursday, June 16, 2016

اَٹھانوے فیصد ڈاکٹر طبی غلطیاں کرتے ہیں: تحقیق



ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تحقیق میں شامل 98.5 فیصد ڈاکٹروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان سے کسی نہ کسی قسم کی طبی غلطی سرزد ہوئی ہے۔
پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق لاہور کے ایک ہسپتال میں ریزیڈنٹ ڈاکٹروں میں سے 98.5 فیصد نے کہا کہ ان سے کسی نہ کسی قسم کی طبی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن میں سے 19 فیصد سنگین نوعیت کی تھیں۔
73 فیصد ڈاکٹروں نے غلطیاں اپنے سینیئر ڈاکٹروں کو تو رپورٹ کیں لیکن صرف 11 فیصد کیسوں میں مریضوں کو ان غلطیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
یہ تحقیق چلڈرن ہاسپیٹل اور انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لاہور میں کی گئی اور اس میں 130 ڈاکٹروں نے حصہ لیا۔
تحقیق میں شامل ڈاکٹر عطیہ باری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق میں یہ جزو شامل نہیں تھا کہ یہ غلطیاں کس قسم کی تھیں اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ دوسروں ملکوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بھی طبی غلطیوں کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
گذشتہ ماہ برٹش جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ امریکہ میں دل کی بیماریوں اور سرطان کے بعد ہلاکتوں کی تیسری بڑی وجہ طبی غلطیاں ہیں اور ان کی وجہ سے ہر سال ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔
امریکہ میں طبی غلطیوں کو ایک ’وبا‘ کہا گیا ہے اور کئی ادارے اس کے سدِباب کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں صورتِ حال کہیں بدتر ہے۔
ڈاکٹر عطیہ باری کے بقول نہ تو پاکستان میں ایسی غلطیوں کا کہیں کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس سے قبل اس موضوع پر کبھی کسی قسم کی تحقیق کی گئی ہے۔ البتہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق کا دائرہ بڑھا کر مستقبل میں اس موضوع پر مزید کام کریں۔
مضر طبی غلطیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر کی کم علمی سے لے کر اس پر کام کا بوجھ تک کئی قسم کے عناصر شامل ہیں۔ حالیہ تحقیق میں 65 فیصد ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کی غلطی کی بڑی وجہ تھکاوٹ تھی۔
ایک اور چیز جو ’مرے پر سو درّے‘ کا کام کرتی ہے، وہ میڈیکل سٹوروں عملہ ہوتا ہے، جو معاملے کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ڈاکٹر سے رابطہ کر کے نسخے کی غلطی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں، الٹا وہ اپنی تربیت اور تعلیم کی کمی کی وجہ مزید غلطیاں کر دیتے ہیں، جن کا نتیجہ مریض کو بھگتنا پڑتا ہے۔
چند روز قبل کراچی میں ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے طبی نسخوں میں مخففات کا بےمحابا استعمال بھی اغلاط کا باعث بنتا ہے۔
پوسٹ گریجویٹ جرنل میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ زیرِ تربیت ڈاکٹر عام طبی مخفف تک سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2014 میں پشاور میں ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا تھا کہ حیرت انگیز طور پر تحقیق میں شامل ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامیطبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ طبی قواعد کے برعکس ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
Courtesy: BBC Urdu

No comments: