کوئی تین ہفتے قبل مَیں نے ایک تحریر میں لکھا تھا کہ بچے اگرپانچ سال کی عمر تک بستر گیلا (سوتے یا نیند میں پیشاب) کر دیتے ہیں تو اُنہیں تربیت (ٹریننگ) کی ضرورت ہے اور اُس کے بعد ایسا کریں تو اُنہیں علاج کی۔
ایسے بچوں کو ڈانٹنا، شرمندہ کرنا یا مہمانوں، رشتہ داروں کے سامنے ان کی اس تکلیف کا ذکر کرنا اُن کی آنے والی زندگی میں بہت پیچیدگیاں لاتا ہے۔ ایسا کرنے سے بچوں کی خود اعتمادی کو جو نقصان پہنچتا ہے؛ وہ عمر بھر اُن کی خوشگوار اور کامیاب زندگی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔
ایسے بچوں کو ڈانٹنا، شرمندہ کرنا یا مہمانوں، رشتہ داروں کے سامنے ان کی اس تکلیف کا ذکر کرنا اُن کی آنے والی زندگی میں بہت پیچیدگیاں لاتا ہے۔ ایسا کرنے سے بچوں کی خود اعتمادی کو جو نقصان پہنچتا ہے؛ وہ عمر بھر اُن کی خوشگوار اور کامیاب زندگی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔
اِس حوالہ سے کئی خواتین و حضرات نے اپنے یا اپنے بچوں کے تجربات ڈسکس کئے۔ ہر کیس میں ایک بات واضح اور مشترک نظر آئی کہ اِس تکلیف سے گزرنے والے تمام لوگوں میں (چاہے وہ بچے ہوں یا بڑے) اعتماد کی واضح کمی پائی گئی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا بچوں میں اعتماد (Confidence) کی کمی ہوتی ہے؛ اس لئے بچے بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں یا بستر گیلا کر دینے کی وجہ سے اُن میں اعتماد (Confidence) نہیں رہتا۔ یورپ اور امریکہ میں اِس موضوع پر بہت تحقیق ہو چکی ہے اور ریسرچ کا یہ سلسلہ جاری بھی رہتا ہے۔
گزشتہ سال ہی دبئی میں اس حوالہ سے تین روزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں دنیا بھر کے نامور سائیکوتھراپسٹ اور سائیکالوجسٹ اپنی تحقیق اور تجربات پیش کرتے رہے۔ ایک ہندوستانی چائلڈ سائیکالوجسٹ کی تحقیق ہمارے معاشری رویوں کی بڑی اچھی ترجمانی کرتی محسوس ہوئی۔ اُس کی تحقیق کا نچوڑ یہ تھا کہ جس بچے کو بستر گیلا کرنے کی بیماری ہے وہ اگر پہلے سے نفسیاتی مسائل کا شکار نہیں بھی ہے تو اب ضرور ہو جائے گا۔ اُس نے سب سے پہلے خود اپنی مثال دی۔ اُس کا کہنا تھا کہ
“مَیں کوئی پانچ چھ سال کا ہوں گا کہ جب یہ واقعہ میرے ساتھ ہوا۔ ہوا یوں کہ میری رشتہ کی کزن جو بہت دور کے گاؤں میں بیاہی گئی تھی؛ ہمارے گھر کسی وجہ سے رات ٹھہری۔ باتیں کرتے کرتے مجھے اُس کے بستر پر ہی نیند آ گئی۔ شور سے میری آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ میں نے اُس کے کپڑے خراب کر دیے تھے اور بستر بھی۔ دوسرے دن جو کوئی بھی اُسے ملا؛ اُس نے یہ واقعہ ہر ایک کو سنایا۔ مجھے اُس عمر کا شاید ہی کوئی واقعہ اِس وضاحت سے یاد ہو جتنا کہ یہ۔ مَیں اُس کے بعد اُسے کوئی چار پانچ دفعہ ہی ملا ہوں گا۔ آخری بار اپنی شادی پر اُس سے ملا۔ جونہی میری نظر اُس پر پڑی مجھے وہ سارا واقعہ اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ یاد آ گیا اور میں اپنے اوپر کنٹرول برقرار نہ رکھ سکا۔ شاید اُسے یہ کچھ یاد بھی نہ ہو لیکن اتنا کچھ پڑھنے اور علاج کرنے کے باوجود اگر میں اُس کا نام کسی بھی حوالہ سے سنوں تو میری کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے”۔
اُس نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ایسا واقعہ جب بھی کسی بچے کے ساتھ ہوتا ہے تو والدین کا رویہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ نیند ہی اُن کی غصہ اور طعنہ بھری باتوں بلکہ شور سے کھلتی ہے۔ اگر گھر میں دوسرے افراد بھی ہیں تو بچے کا پہلا ڈر یہ ہوتا ہے کہ سب کو معلوم ہو جائے گا۔ ہر رات بچے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے کہ آج رات تم نے کیا نا تو خیر نہیں۔ گھر میں کوئی مہمان آیا ہو تو بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی کے ہاں رات ٹھہریں تو سونے سے پہلے یہ کہانی دہرائی جاتی ہے۔ ایک خاص شیٹ سنبھالی، نکالی اور بچھائی جاتی ہے۔ بچے کو نیند سے اٹھا کر واش روم لے جایا جاتا ہے جس سے اُس کی نیند بے وجہ بھی ڈسٹرب ہوتی ہے۔ بعض اوقات رشتہ دار پوچھتے بھی رہتے ہیں کہ اب بھی یہ پیشاب کر دیتا ہے؟ دوسرے بچوں سے جب کبھی جھگڑا وغیرہ ہوتا ہے تو یہ طعنہ اعلانیہ ملتا ہے۔
کئی بار رات کے وقت بستر گیلا ہونے کا والدین کو بر وقت علم نہیں ہو پاتا اور یہ بچے شرم اور ڈر سے خود بتاتے بھی نہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ان کی طبیعت اکثر خراب رہتی ہے جس کے لئے بار بار دوائیاں دینی پڑتی ہیں۔ نزلہ زکام اور کھانسی ایسے بچوں کو جلدی پکڑ لیتی ہے۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑے اور بیزار رہتے ہیں۔ سکول میں بھی توجہ برقرار نہیں رکھ پاتے۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ ایسے بچوں کو مارکیٹ میں بنی بنائی دوائیوں، نسخوں یا ٹوٹکوں سے مستقل فائدہ نہیں ہوتا۔ اِن کے نفسیاتی مسائل کو خوب سوچ سمجھ کر علاج کیا جائے تو یہ عادت یا تکلیف ہومیوپیتھک علاج سے کنٹرول ہونے کے ساتھ ساتھ بچے کی خود اعتمادی میں بھی واضح بہتری ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ابوظہبی کی ایک فیملی نے اپنے بیٹے کا کیس ڈسکس کیا جس کا اہم مسئلہ اعتماد کی کمی تھی۔ کیس کے دوران مجھے بھی خیال نہ آیا اور انہوں نے بھی ذکر نہ کیا کہ بیٹے کو بستر گیلا کرنے کی مستقل بیماری بھی ہے۔ اگرچہ بہتری تو آ رہی تھی لیکن واضح نہ تھی۔ نئے سرے سے کیس لیا گیا اور کسی بات سے اس بات کا اشارہ مل گیا۔ بیٹے کے تمام مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہومیوپیتھک دوا “آرسنیک البم” (Arsenicum Album) دی گئی۔ والدین کا خوشی سے بھرپور ماہانہ فیڈبیک کل موصول ہوا کہ پورے مہینے میں ایک بار بھی بیٹے نے بستر گیلا نہیں کیا۔
فرماتے ہیں:
ایک اچھی خبر جو آپ کو بتانا ضروری ہے۔ بیٹے نے ایک بار بھی بستر گیلا نہیں کیا۔ ہوتا یوں ہے کہ اب وہ خود آدھی رات کو اٹھتا ہے، واش روم جاتا ہے اور واپس آ کر سو جاتا ہے۔ اُس نے اب پیشاب کا پریشر محسوس کرنا شروع کر دیا ہے جو اُسے رات کو جگا دیتا ہے۔ پچھلے چار ہفتے یعنی پورا مہینہ بالکل ہی صاف گزرا۔ گزشتہ دو ہفتے تو خاص طور پر اہم ہیں کہ جب اُس کا سکول دوبارہ کھل گیا ہے۔
ایک اچھی خبر جو آپ کو بتانا ضروری ہے۔ بیٹے نے ایک بار بھی بستر گیلا نہیں کیا۔ ہوتا یوں ہے کہ اب وہ خود آدھی رات کو اٹھتا ہے، واش روم جاتا ہے اور واپس آ کر سو جاتا ہے۔ اُس نے اب پیشاب کا پریشر محسوس کرنا شروع کر دیا ہے جو اُسے رات کو جگا دیتا ہے۔ پچھلے چار ہفتے یعنی پورا مہینہ بالکل ہی صاف گزرا۔ گزشتہ دو ہفتے تو خاص طور پر اہم ہیں کہ جب اُس کا سکول دوبارہ کھل گیا ہے۔
(سکول کھلنے کا خاص طور پر اِس لئے لکھا ہے کیونکہ بچے جلدی سو جاتے ہیں اور دن بھر کے تھکے ہارے ہوتے ہیں۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اُن کی نیند نہ کھل سکے)۔
حسین قیصرانی – ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
Salaam,
One good news worth sharing with you. For …… there had been no instance of bed wetting. In fact, he gets up around 1 AM to go to the toilet, returns and sleeps again
So he has started to feel on his sleep about bladder pressure which wakes him up now.
So he has started to feel on his sleep about bladder pressure which wakes him up now.
Last 4 weeks have been clean. Especially the last two weeks when he was attending school
Alhamdolillah. Thank you Dr sb for your guidance.
Related Posts
بچوں کا بستر پر پیشاب کرنا – ہومیوپیتھک علاج – حسین قیصرانی
No comments:
Post a Comment