ایک ہفتہ قبل کراچی کی کاروباری فیملی نے اپنی بچی کے علاج کے لئے رابطہ کیا۔ اُن کے خیال میں بچی کی جسامت، وزن اور قد اپنی عمر اور کلاس کے بچوں سے واضح کم اور چھوٹا تھا۔ وہ کافی علاج کروا چکے تھے لیکن اب ہومیوپیتھک دوا استعمال کروانے کے خواہش مند تھے۔ اُن کو سمجھایا گیا کہ بچی کے مجموعی مسائل کو سمجھے بغیر جو بھی علاج ہو گا؛ اولاً تو وہ کوئی فائدہ دے گا ہی نہیں اور اگر کوئی نسخہ، ٹوٹکا اور تُکا کامیاب ہو بھی گیا تو وہ محض وقتی ہو گا۔ ہومیوپیتھک علاج کا یہ ضروری تقاضا ہے کہ ہم بچی کے ہر مسئلے کو ڈسکس کریں، سمجھیں کہ رکاوٹ کہاں ہے اور اُسے دور کیسے کیا جائے۔ بات اُن کی سمجھ میں آ گئی۔
بچی سے بات ہوئی۔ اُس کی پسند نا پسند کا بھی پوچھا گیا۔ والدہ سے کوئی گھنٹہ بھر ڈسکشن ہوئی اور والد صاحب کا انٹرویو ہوا۔ خلاصہ یہ تھا کہ بچی کو مختلف مواقع پر بہت دوائیاں دی گئیں۔ اُس کی خوراک اب بڑی ہی محدود ہے اور پیاس تو نہ ہونے کے برابر۔ کوئی صحت مند چیز کھانے کو راضی نہیں۔ پیزا، شوارما، نمکو پسند ہیں مگر وہ بھی بازاری۔ کولڈ ڈرنک اور آئس کریم کی طلب ہوتی ہے۔
ذرا سی بات اُس کے خلاف یا اُس کے کسی معاملہ پر کی جائے تو ناراض ہو جاتی ہے۔ بے حد نازک مزاج ہے۔ غصہ تو اِس کے ناک پر چڑھا رہتا ہے۔ پڑھنے میں البتہ اچھی ہے اور اپنا ہوم ورک وقت پر اور صفائی سے کرتی ہے۔ اُس کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے ہر وقت شکایت رہتی ہے۔ ہر مسئلہ رونے پر ہی ختم ہوتا ہے۔ تھکی تھکی، آوازار اور رونے بسونے والی شکل بنائے رکھتی ہے۔ چہرے پر ذرا بھی رونق نہیں رہی حالانکہ پہلے بہت خوبصورت اور چلبلی تھی۔ اب ہنسنا یا کھیلنا کودنا تو ہے ہی نہیں۔ کافی سنجیدہ ہو گئی ہے۔ سر درد یا تھکے ہونے کی شکایت بھی کرتی ہے۔ نیند ڈسٹرب ہے؛ سوتے میں ڈر بھی جاتی ہے اور بے چین رہتی ہے۔
ذرا سی بات اُس کے خلاف یا اُس کے کسی معاملہ پر کی جائے تو ناراض ہو جاتی ہے۔ بے حد نازک مزاج ہے۔ غصہ تو اِس کے ناک پر چڑھا رہتا ہے۔ پڑھنے میں البتہ اچھی ہے اور اپنا ہوم ورک وقت پر اور صفائی سے کرتی ہے۔ اُس کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے ہر وقت شکایت رہتی ہے۔ ہر مسئلہ رونے پر ہی ختم ہوتا ہے۔ تھکی تھکی، آوازار اور رونے بسونے والی شکل بنائے رکھتی ہے۔ چہرے پر ذرا بھی رونق نہیں رہی حالانکہ پہلے بہت خوبصورت اور چلبلی تھی۔ اب ہنسنا یا کھیلنا کودنا تو ہے ہی نہیں۔ کافی سنجیدہ ہو گئی ہے۔ سر درد یا تھکے ہونے کی شکایت بھی کرتی ہے۔ نیند ڈسٹرب ہے؛ سوتے میں ڈر بھی جاتی ہے اور بے چین رہتی ہے۔
والدین کو بتایا گیا کہ قد بڑھنے کا واضح نظر آنا تو پانچ چھ ماہ بعد ممکن ہوتا ہے لیکن اگر بچی کی خوراک، پیاس، نیند اور مزاج میں تبدیلی آ جائے تو سمجھنا چاہئے کہ علاج صحیح ہو رہا ہے۔
ہومیوپیتھی ہر بچے کے قد نہ بڑھنے کی وجوہات اپنی اپنی ہوتی ہیں اور اس لئے علاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ اِس بچی کو ابھی جو ہومیوپیتھک دوا دی گئی وہ ہے: نکس وامیکا (Nux Vomica) جوں جوں علامات تبدیل ہوتی جائیں گی، دوا بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ سلسلہ کم و بیش چھ سات ماہ چلتا ہے اور بچے کی نہ صرف جسامت اور قد بڑھ جاتا ہے بلکہ مجموعی صحت میں بھی بے پناہ بہتری آ جاتی ہے۔
ایک ہفتہ بعد والدین نے رابطہ کیا تو اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے بچی تو جیسے پوری تبدیل ہو گئی۔ ما شاء اللہ! خوب کھانے پینے اور ہنسنے کھیلنے لگی ہے۔ والدہ نے بتایا کہ قہقہے مار کر ہنستی ہے اور سارے گھر میں اِس کے قہقہوں کی آواز گونجتی ہے۔ وزن بڑھنے کا احساس ابھی سے ہونے لگا ہے۔ نیند بھی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
والدین کا فیڈبیک ملاحظہ فرمائے۔
بیٹی کے چہرے پر رونق لگتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کھیل بھی زیادہ رہی ہے۔
سر جی! اس کا وزن بھی کچھ بڑھا ہے اِس دوائی سے۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ فرق مجھے لگتا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ وزن بڑھا ہے۔
سر جی! اس کا وزن بھی کچھ بڑھا ہے اِس دوائی سے۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ فرق مجھے لگتا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ وزن بڑھا ہے۔
بھوک زیادہ لگتی ہے۔ کھانے کے بعد پھر دل کرتا ہے کھانے کا کچھ دیر بعد؛ وہ دے رہے ہیں اِس کو۔ پیاس بھی بڑھ گئی ہے اِس کی؛ پانی پیتی ہے۔ اور یہ کہ چہرے پر رونق ہے اِس کے۔ چڑچڑاپن ابھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210
Related Posts
قد، جسامت اور وزن میں اضافہ: ہومیوپیتھک دوا اور علاج – حسین قیصرانی
No comments:
Post a Comment