سانس میں رکاوٹ، کمر درد، انگزائٹی، الرجی، غصہ، کان کی آوازیں اور معدے کی سخت خرابی – کامیاب کیس – حسین قیصرانی
کیس پریزینٹیشن، فیڈ بیک کے رواں اردو ترجمہ اور کمپوزنگ کے لئے محترمہ مہرالنسا کا شکریہ۔
————
آپ نے کبھی کسی ماہر شعبدہ باز کو دیکھا ہے جو ہاتھوں میں لمبی چھڑی تھامے ایک تنی ہوئی رسی پر، ہزاروں کے مجمع میں انتہائی پُر اعتماد انداز، انتہائی پھرتی اور کامیابی سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ وہ ایسا کیسے کر لیتا ہے۔ جی ہاں! آپ کی سوچ بالکل صحیح ہے کہ یہ سارا کھیل توازن کا ہے؛ جہاں توازن بگڑا وہاں کھیل خراب ہو جائے گا۔
زندگی کی تنی ہوئی رسّی پر کامیابی سے چلنے کے لئے بھی دل و دماغ میں توازن برقرار رکھنا بے حد ضروری ہے۔ جب تک توازن قائم رہے گا تب تک زندگی میں راحت اور سکون رہے گا۔ جیسے ہی ذرا سی لغزش ہوئی، زندگی کی کشتی ہچکولے لینے لگتی ہے اور انسان جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل میں الجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس کیس کا ہے۔
————
آپ نے کبھی کسی ماہر شعبدہ باز کو دیکھا ہے جو ہاتھوں میں لمبی چھڑی تھامے ایک تنی ہوئی رسی پر، ہزاروں کے مجمع میں انتہائی پُر اعتماد انداز، انتہائی پھرتی اور کامیابی سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ وہ ایسا کیسے کر لیتا ہے۔ جی ہاں! آپ کی سوچ بالکل صحیح ہے کہ یہ سارا کھیل توازن کا ہے؛ جہاں توازن بگڑا وہاں کھیل خراب ہو جائے گا۔
زندگی کی تنی ہوئی رسّی پر کامیابی سے چلنے کے لئے بھی دل و دماغ میں توازن برقرار رکھنا بے حد ضروری ہے۔ جب تک توازن قائم رہے گا تب تک زندگی میں راحت اور سکون رہے گا۔ جیسے ہی ذرا سی لغزش ہوئی، زندگی کی کشتی ہچکولے لینے لگتی ہے اور انسان جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل میں الجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس کیس کا ہے۔
ایک نہایت ہی پُر وقار، با رعب شخصیت کے مالک اور اعلیٰ عہدے پر فائز انجینئر صاحب اسلام آباد سے اپنا کیس ڈسکس کرنے عین وقت پر تشریف لائے۔ عمر ساٹھ کے لگ بھگ تھی۔ اگرچہ کافی پریشان تھے لیکن انداز میں ایک خاص رکھ رکھاؤ اور وضع داری بلکہ افسرانہ پن تھا۔ ہاتھ میں ایک خوبصورت فولڈر ٹائپ کی فائل تھی جسے دیکھ کر پتہ چلا کہ انہوں نے اب تک جہاں جہاں سے علاج کروایا اور جو جو ٹیسٹ کروائے (جو کہ اچھی خاصی تعداد میں تھے) وہ ایک باقاعدہ ترتیب سے اس میں موجود تھے۔ فائل کے آغاز میں ایک انڈیکس بھی بنایا گیا تھا جس میں تمام ریکارڈ کی لسٹ اور سمری تھی۔ انڈیکس سے ہی اب تک کی تمام بیماریوں اور علاج کا ایک مختصر جائزہ ملتا تھا۔ گزشتہ کم و بیش بیس سالوں کا ریکارڈ میرے ملاحظہ کے لئے لائے تھے۔
دورانِ گفتگو پتہ چلا کہ ایک ملٹی نیشنل ادارے کے سربراہ ہیں اور چند ماہ بعد ہی ریٹائرمنٹ ہے۔ پچھلے بیس سالوں سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ دوائیوں اور ڈاکٹرز کی سہولت اُن کے پیکیج میں شامل تھی۔ کہنے لگے نہ بھی ہوتی تو بھی علاج ٹاپ ڈاکٹرز سے کروانے کا ہی مزاج ہے۔ ریکارڈ بتا رہا تھا کہ اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے علاج کروا چکے تھے۔ اس کے باوجود انہیں ہر علاج کے بعد مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا تھا۔ اپنی صحت کے لیے بہت ہی زیادہ بلکہ انگزائٹی کی حد تک فکر مند تھے۔
جو مسائل پریشان کر رہے تھے؛ ان میں سرِفہرست سانس کی تکلیف تھی۔ پھیپھڑوں کی کارکردگی (lungs capacity) کم ہوتی جا رہی تھی۔ سموکر تھے اور سگریٹ کی وجہ سے سانس میں تنگی دمہ (Asthma) کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ معدہ (stomach) اکثر خراب رہتا تھا۔ بلڈ پریشر ہائی high blood pressure رہنے لگا تھا۔ کولیسٹرول لیول ہائی (high cholesterol) تھا اور ٹرائی گلائیسرائیڈ (Triglycerides) میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری تھا۔ یورک ایسڈ uric acid بڑھ چکا تھا۔ چلنے پھرنے کے دوران گھٹنوں سے چٹخنے knee crackling کی آوازیں آتی تھیں جس سے خوف اور فوبیا سا رہتا تھا کہ ہڈیاں کمزور ہو رہی ہیں۔ ہڈیاں کمزور ہونے کا مطلب اُن کے لئے محتاجی تھا۔ معذوری اور محتاجی (Dependency) کا تصور ہی اُنہیں ہِلا کر رکھ دیتا تھا۔ وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ انہیں بستر پر پڑنا پڑ جائے۔ ہمیشہ ایکٹو زندگی گزاری۔ چھٹی والے دن یا دنوں میں بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا مزاج تھا۔ اپنے آپ کو کام کاج میں مستقل الجھائے رہتے تھے۔ فراغت، فرصت اور آرام اچھا نہیں لگتا تھا۔ بے چینی، بے قراری اور بے آرامی کے اس مزاج کی وجہ سے نقاہت بہت زیادہ رہنے لگی تھی۔ اب جلدی تھکنے fatigue لگے تھے۔ سر سے گرمی یا سیک نکلنے کا احساس رہتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ سر پر ہوا لگے اور ٹھنڈ کا احساس سر کے درد (Headache) اور احساس کو بہت سکون دیتا ہے۔
کمر بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں درد تھا۔ کبھی کبھار چُک پڑنے کا درد اور احساس بھی رہتا تھا۔ گھٹنے (Knee Pain) میں تکلیف رہتی تھی جس کی وجہ سے یہ فکر بڑھ جاتی تھی کہ کہیں چلنے پھرنے سے معذور نہ ہو جاؤں۔ کمر (Backache) اور ٹانگ کے درد سے لگتا ہے کہ شیاٹیکا (Sciatica) کی تکلیف ہے۔ معدہ میں کبھی کوئی مسئلہ تو کبھی کوئی لیکن ایک بات مستقل اور مسلسل تھی کہ معدے کی کوئی بھی تکلیف ہوتی یا خوراک کی نالی میں درد کی شکایت، وہ دہی کھانے سے ٹھیک ہو جاتی تھی۔
اگرچہ بلڈ پریشر بڑھا رہنے لگا تھا مگر نمک تیز ہی اچھا لگتا تھا۔ ٹھنڈے پانی کی پیاس لگتی تھی مگر زیادہ نہیں پیا بھی جاتا تھا، تھوڑا تھوڑا پانی پیتے تھے مگر بار بار۔ پانی کی چھوٹی بوتل عموماً ہاتھ میں رکھتے اور ایک دو گھونٹ پی لیتے تھے۔ رات سوتے ہوئے بھی حلق خشک ہو جاتا اور نیند سے اُٹھ کر دو چار گھونٹ پانی پینا پڑتا تھا۔ گلے میں کیرا ریشہ گرنے کا احساس رہتا تھا اور گلا صاف کرتے رہتے تھے۔ عام طور پر آدھی رات کو یا دوپہر کو عجیب بے قراری (Restlessness) سی محسوس ہوتی تھی۔
جو مسائل پریشان کر رہے تھے؛ ان میں سرِفہرست سانس کی تکلیف تھی۔ پھیپھڑوں کی کارکردگی (lungs capacity) کم ہوتی جا رہی تھی۔ سموکر تھے اور سگریٹ کی وجہ سے سانس میں تنگی دمہ (Asthma) کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ معدہ (stomach) اکثر خراب رہتا تھا۔ بلڈ پریشر ہائی high blood pressure رہنے لگا تھا۔ کولیسٹرول لیول ہائی (high cholesterol) تھا اور ٹرائی گلائیسرائیڈ (Triglycerides) میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری تھا۔ یورک ایسڈ uric acid بڑھ چکا تھا۔ چلنے پھرنے کے دوران گھٹنوں سے چٹخنے knee crackling کی آوازیں آتی تھیں جس سے خوف اور فوبیا سا رہتا تھا کہ ہڈیاں کمزور ہو رہی ہیں۔ ہڈیاں کمزور ہونے کا مطلب اُن کے لئے محتاجی تھا۔ معذوری اور محتاجی (Dependency) کا تصور ہی اُنہیں ہِلا کر رکھ دیتا تھا۔ وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ انہیں بستر پر پڑنا پڑ جائے۔ ہمیشہ ایکٹو زندگی گزاری۔ چھٹی والے دن یا دنوں میں بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا مزاج تھا۔ اپنے آپ کو کام کاج میں مستقل الجھائے رہتے تھے۔ فراغت، فرصت اور آرام اچھا نہیں لگتا تھا۔ بے چینی، بے قراری اور بے آرامی کے اس مزاج کی وجہ سے نقاہت بہت زیادہ رہنے لگی تھی۔ اب جلدی تھکنے fatigue لگے تھے۔ سر سے گرمی یا سیک نکلنے کا احساس رہتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ سر پر ہوا لگے اور ٹھنڈ کا احساس سر کے درد (Headache) اور احساس کو بہت سکون دیتا ہے۔
کمر بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں درد تھا۔ کبھی کبھار چُک پڑنے کا درد اور احساس بھی رہتا تھا۔ گھٹنے (Knee Pain) میں تکلیف رہتی تھی جس کی وجہ سے یہ فکر بڑھ جاتی تھی کہ کہیں چلنے پھرنے سے معذور نہ ہو جاؤں۔ کمر (Backache) اور ٹانگ کے درد سے لگتا ہے کہ شیاٹیکا (Sciatica) کی تکلیف ہے۔ معدہ میں کبھی کوئی مسئلہ تو کبھی کوئی لیکن ایک بات مستقل اور مسلسل تھی کہ معدے کی کوئی بھی تکلیف ہوتی یا خوراک کی نالی میں درد کی شکایت، وہ دہی کھانے سے ٹھیک ہو جاتی تھی۔
اگرچہ بلڈ پریشر بڑھا رہنے لگا تھا مگر نمک تیز ہی اچھا لگتا تھا۔ ٹھنڈے پانی کی پیاس لگتی تھی مگر زیادہ نہیں پیا بھی جاتا تھا، تھوڑا تھوڑا پانی پیتے تھے مگر بار بار۔ پانی کی چھوٹی بوتل عموماً ہاتھ میں رکھتے اور ایک دو گھونٹ پی لیتے تھے۔ رات سوتے ہوئے بھی حلق خشک ہو جاتا اور نیند سے اُٹھ کر دو چار گھونٹ پانی پینا پڑتا تھا۔ گلے میں کیرا ریشہ گرنے کا احساس رہتا تھا اور گلا صاف کرتے رہتے تھے۔ عام طور پر آدھی رات کو یا دوپہر کو عجیب بے قراری (Restlessness) سی محسوس ہوتی تھی۔
مزید معلومات لینے پر اندازہ ہوا کہ انہیں غصہ (Anger) بہت آتا ہے۔ طبیعت میں چڑچڑاپن (Irritation) کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ غلط بات تو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔ اتنے سال بطور اعلیٰ آفیسر کام کرنے سے نظم و ضبط، باقاعدگی، قوانین کی پاسداری، وقت کی پابندی، اخلاقیات اور حکمانہ انداز ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ ان کے حساب سے ہر معاملہ انتہائی سلیقے، قرینے اور منظم طریقے (Fastidious / Perfectionist) سے پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہئے۔ جب اور جہاں ایسا نہیں ہوتا تھا تو خود میدان میں اتر جاتے ہیں۔ ہر چیز کا ترتیب میں ہونا ان کے لیے بہت ضروری تھا۔ بے ترتیبی سے انہیں سخت الجھن ہونے لگتی۔ اپنے وزن بڑھنے کی انہیں بہت ہی زیادہ فکرمندی تھی اور پیٹ کا تھوڑا سا بڑا ہونا بھی زہر لگتا تھا۔ غیر ارادی طور پر سب کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ کام کے دوران تو کسی حد تک یہ ممکن تھا لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد یہ “مصروفیت” ہاتھ سے جاتی نظر آ رہی تھی۔ اپنے جونئر کو کام کا کہہ کر فارغ نہیں ہوتے تھے بلکہ دماغ ادھر ہی رہتا تھا۔ اُن کو تسلی ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ کام صحیح ہو پائے گا۔ اور یہ عدم تحفظ ان کی انگزائٹی (Anxiety) کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا تھا۔ وہ پریشان تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کیا کریں گے۔
ڈسٹ الرجی (Dust Allergy) کا شکار تھے یا صفائی کے خبط (OCD) کا؛ اس کا انہیں کنفرم نہیں تھا مگر یہ طے تھا کہ کہیں تھوڑی سی بھی مٹی کٹا نظر آتا تو اُن کے آفس بوائے کی شامت آ جاتی تھی۔ انٹی الرجی (Anti Allergy) بھی کافی عرصہ کھائی۔ ناک، کان اور گلا (ENT) کے مسائل اُن کو ہمیشہ سے ہی تھے مگر اب تو کان سے سیٹی، بھنبھناہٹ اور شور کی آواز (Tinnitus) بھی آتی تھی جس سے بہت کوفت ہوتی تھی۔ اُن کے ڈاکٹر (ENT Specialist) نے کہا کہ آپ اس آواز کی طرف توجہ نہ دیا کرو۔ کہنے لگے کہ میں کوئی خوشی سے اس کی طرف توجہ دیتا ہوں کیا؟ ویکس (Ear Wax) کی صفائی کروائی اور فنگس (Fungus) کا علاج بھی مگر کان کی ساں ساں (Buzzing) تو ویسے ہی رہی یا شاید بڑھ گئی مگر گرنے کا احساس ہونے لگا۔ چلتے پھرتے چند سیکنڈ کی ایک عجیب سی لہر (Vertigo Movement) آتی ہے جس سے لگتا ہے کہ گر جاؤں گا۔ ہر قسم کی دوائی اور ٹیسٹ کروانے کے باوجود کچھ سمجھ نہیں آ پاتی تو ڈاکٹرز کہتے ہیں یہ آپ کا وہم ہے۔
ڈسٹ الرجی (Dust Allergy) کا شکار تھے یا صفائی کے خبط (OCD) کا؛ اس کا انہیں کنفرم نہیں تھا مگر یہ طے تھا کہ کہیں تھوڑی سی بھی مٹی کٹا نظر آتا تو اُن کے آفس بوائے کی شامت آ جاتی تھی۔ انٹی الرجی (Anti Allergy) بھی کافی عرصہ کھائی۔ ناک، کان اور گلا (ENT) کے مسائل اُن کو ہمیشہ سے ہی تھے مگر اب تو کان سے سیٹی، بھنبھناہٹ اور شور کی آواز (Tinnitus) بھی آتی تھی جس سے بہت کوفت ہوتی تھی۔ اُن کے ڈاکٹر (ENT Specialist) نے کہا کہ آپ اس آواز کی طرف توجہ نہ دیا کرو۔ کہنے لگے کہ میں کوئی خوشی سے اس کی طرف توجہ دیتا ہوں کیا؟ ویکس (Ear Wax) کی صفائی کروائی اور فنگس (Fungus) کا علاج بھی مگر کان کی ساں ساں (Buzzing) تو ویسے ہی رہی یا شاید بڑھ گئی مگر گرنے کا احساس ہونے لگا۔ چلتے پھرتے چند سیکنڈ کی ایک عجیب سی لہر (Vertigo Movement) آتی ہے جس سے لگتا ہے کہ گر جاؤں گا۔ ہر قسم کی دوائی اور ٹیسٹ کروانے کے باوجود کچھ سمجھ نہیں آ پاتی تو ڈاکٹرز کہتے ہیں یہ آپ کا وہم ہے۔
کیس کو سمجھتے ہوئے ان کا علاج شروع کیا۔ پہلے ہفتے میں ہی سانس کی تکلیف کافی بہتر ہوگئی۔ دو ماہ تک تمام مسائل میں بہتری آ گئی۔ نقاہت کی جگہ چستی (Activeness) نے لے لی تھی۔ موڈ خوشگوار رہنے لگا تھا۔ اللہ کے کرم سے کولسٹرول اور بلڈ پریشر کنٹرول میں تھے۔ معاملات کو ہلکے پھلکے انداز میں لینے لگے تھے۔ انہوں نے جان لیا تھا کہ ضروری نہیں کہ آپ ہمیشہ تنی ہوئی رسی پر ہاتھ میں چھڑی تھامے رواں دواں ہوں بلکہ کبھی کبھی تماشائی بن کر مشاہدہ کرنا زیادہ خوش کن ہوتا ہے۔
کامیاب ہومیوپیتھک علاج کے تین ماہ بعد مریض کا فیڈبیک
میری عمر 60 سال ہے اور 44 سال کی عمر میں ہی میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونا شروع ہوا۔ کان کا انفیکشن (ear infection)، آنکھ کا موتیا (eyes cataract)، پھر تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کی کارکردگی متاثر ہونے لگی۔ سانس لینے میں تکلیف ہوتی۔ معدہ سوج گیا۔ مزید برآں ہائی بلڈ پریشر (High Blood Pressure) یورک ایسڈ (uric acid) ہائی کولیسٹرول (high cholesterol) اور Triglycerides کی بڑھتی ہوئی شرح نے زندگی مشکل بنا دی تھی. پہلے اسلام آباد اور پھر کراچی کے سینئر اور مشہور ڈاکٹرز سے علاج کرواتا رہا مگر 15 سال تک وہی نتیجہ رہا۔ مجھے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
میں دوائیوں کی بھاری خوراک پسند نہیں کرتا جو معدہ بھی جلائیں اور جیب بھی۔ تنگ آ کر میں نے ڈاکٹرز کے ہاں بھی جانا چھوڑ دیا۔ اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا وزن بڑھنے (over weight) لگا اور کمر کا سائز بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھٹنے سے چٹخنے (knee crackling) کی آوازیں آنے لگی اور زندگی کے تمام معاملات میں کمزوری weakness کا احساس ہونے لگا۔ میری ایک بیٹی اور داماد لاہور میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ڈاکٹر حسین قیصرانی سے ملنے کے لیے لاہور بلوایا اس طرح میری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب نے دوسرے ڈاکٹرز ہی کی طرح میری رپورٹس اور بیماریوں کی ہسٹری دیکھتے ہوئے تشخیص کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے دوسرے ڈاکٹرز ہی کی طرح میری رپورٹس اور بیماریوں کی ہسٹری دیکھتے ہوئے تشخیص کا آغاز کیا۔
پھر انہوں نے انوکھے مگر دلچسپ سوالات کرنے شروع کر دیے جو کہ عام طور پر ڈاکٹرز نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی نہر میں کوڑا پھینک رہا ہو اور اتفاق سے آپ کا وہاں سے گزر ہو تو آپ کیا کریں گے۔ میرا جواب تھا کہ میں اسے اس غلط کام سے روکوں گا۔ اگلا سوال تھا کہ آپ بالعموم نئے کرنسی نوٹ رکھنا پسند کرتے ہیں؟ تو میرا جواب “جی ہاں” تھا کیونکہ میں واقعی ہمیشہ نئے کرنسی نوٹ رکھنے اور پرانے خرچ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اپنی میز کا دراز کھولتے ہوئے انہوں نے اگلا سوال کیا کہ آپ اس دراز کے ساتھ کیا کریں گے؟ میں نے کہا میں اسے مکمل طور پر بند کردوں گا۔ اگر میز یا دیوار پر چیزیں منظم اور ترتیب سے نہ ہوں تم مجھے سخت الجھن ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے میری نیند اور خوابوں کے بارے میں کچھ باتیں کیں جو بالکل صحیح تھیں۔
اِس طرح کے سوالات کو کنفرم کر کے وہ مسکرائے جیسے وہ بیماری کی جڑ تک پہنچ گئے ہوں۔ اور واقعی میں وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو انہوں نے ثابت بھی کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے تین دوائیاں دیں اور بتایا کہ دو استعمال کرنی ہے اور ایک سنبھال کر رکھنے کے لیے ۔۔۔۔۔ دو ہفتے بعد میں نے انہیں بتایا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں اور مجھے کیا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اپنی طبیعت کے متعلق مکمل تفصیل دی۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے مزید دو دوائیں دیں اور صرف دو ماہ میں، میں نے اپنے آپ کو واضح بہتر پایا۔ یہ ایک خوش کن اور پرجوش نتیجہ تھا جو ابھی تک جاری ہے۔
اپنی میز کا دراز کھولتے ہوئے انہوں نے اگلا سوال کیا کہ آپ اس دراز کے ساتھ کیا کریں گے؟ میں نے کہا میں اسے مکمل طور پر بند کردوں گا۔ اگر میز یا دیوار پر چیزیں منظم اور ترتیب سے نہ ہوں تم مجھے سخت الجھن ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے میری نیند اور خوابوں کے بارے میں کچھ باتیں کیں جو بالکل صحیح تھیں۔
اِس طرح کے سوالات کو کنفرم کر کے وہ مسکرائے جیسے وہ بیماری کی جڑ تک پہنچ گئے ہوں۔ اور واقعی میں وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو انہوں نے ثابت بھی کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے تین دوائیاں دیں اور بتایا کہ دو استعمال کرنی ہے اور ایک سنبھال کر رکھنے کے لیے ۔۔۔۔۔ دو ہفتے بعد میں نے انہیں بتایا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں اور مجھے کیا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اپنی طبیعت کے متعلق مکمل تفصیل دی۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے مزید دو دوائیں دیں اور صرف دو ماہ میں، میں نے اپنے آپ کو واضح بہتر پایا۔ یہ ایک خوش کن اور پرجوش نتیجہ تھا جو ابھی تک جاری ہے۔
تین ماہ گزر گئے ہیں اور میں نے بہت بڑی تبدیلی محسوس کی ہے۔ کچھ معاملات میں تو بہت تیزی سے شفا ملی جیسے پھیپھڑے (Lungs) ایک ہفتے میں ٹھیک ہوگئے۔ مجھے سانس لینے میں جو دشواری اور تنگی تھی وہ بالکل ٹھیک ہو گئی (کیا آپ یقین کریں گے؟)۔ باقی معاملات بھی تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ جلدی تھکاوٹ fatigue کا احساس اب نہیں ہوتا۔ غصہ اور مستقل چڑ چڑا پن نہیں رہا۔ کولسٹرول اور یورک ایسڈ وغیرہ بھی کنٹرول میں آ چکے ہیں۔
کاش ڈاکٹر صاحب ان تمام انسانوں کو میسر ہوں جو ایک کے بعد دوسرا ڈاکٹر بدلتے رہتے ہیں۔ کافی مہنگی اور مستقل دوائیاں کھانے کے باوجود بہت پریشان اور بیمار ہیں۔
اگر آپ ڈاکٹرز کے پاس جا جا کر اور دوائیاں کھا کھا کر تنگ آ چکے ہیں تو ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ حسین قیصرانی سے ایک بار اپنا کیس ضرور ڈسکس کرلیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ایک مختلف نقطہ نظر، ایک سادہ طریقہ علاج اور بہترین نتائج کا ایک ساتھ مشاہدہ کریں گے۔
شکریہ ڈاکٹر حسین قیصرانی! ان شاء اللہ دسمبر میں ملاقات ہوگی۔
کیس کا تجزیہ اور ہومیوپیتھی دوائیں (ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور سٹوڈنٹس کے لئے)۔
یہ آرسنیک البم کیس تھا (Arsenicum Album) تاہم اوپر کی سطح میرے نزدیک نکس وامیکا (Nux Vomica) کی تھی۔ ویسے بھی سالہا سال سے متواتر ایلوپیتھک ادویات بہت بڑی مقدار میں متواتر لیتے رہے تھے اور اب بھی جاری تھیں؛ اِس وجہ سے بھی پہلی دوائی نکس وامیکا ہی دی گئی۔ رات سوتے وقت نکس وامیکا ایک گولی اور صبح نکس وامیکا ایک گولی۔ اس سے ان کے معدے کے مسائل، نیند، سانس کی تکالیف، غصہ، چڑ چڑا پن واضح طور پر بہتر ہو گئے۔ سگریٹ کی طلب میں بھی واضح طور پر کمی آ گئی۔
یہ آرسنیک البم کیس تھا (Arsenicum Album) تاہم اوپر کی سطح میرے نزدیک نکس وامیکا (Nux Vomica) کی تھی۔ ویسے بھی سالہا سال سے متواتر ایلوپیتھک ادویات بہت بڑی مقدار میں متواتر لیتے رہے تھے اور اب بھی جاری تھیں؛ اِس وجہ سے بھی پہلی دوائی نکس وامیکا ہی دی گئی۔ رات سوتے وقت نکس وامیکا ایک گولی اور صبح نکس وامیکا ایک گولی۔ اس سے ان کے معدے کے مسائل، نیند، سانس کی تکالیف، غصہ، چڑ چڑا پن واضح طور پر بہتر ہو گئے۔ سگریٹ کی طلب میں بھی واضح طور پر کمی آ گئی۔
بعد ازاں آرسنیک البم (Arsenicum Album)، نیٹرم سلف (Natrum Sulph) اور میڈورائنم (Medorrhinum) حسبِ ضرورت دی گئیں۔ کم و بیش چار ماہ کے علاج اور میڈورائنم (Medorrhinum) لینے کے بعد ان کا خیال تھا کہ وہ واضح طور پر اپنے آپ کو فٹ سمجھ رہے ہیں سو مزید علاج جاری رکھنے کی ضرورت انہوں نے نہیں سمجھی۔
مریض کا فیڈبیک اُن کے اپنے الفاظ میں
I’m almost 60 years old now, ever since I crossed 44; I developed various diseases starting from ear infection, followed by eyes cataract, then lungs capacity was detected reducing gradually, due to smoking and then stomach started swelling. Few things like high blood pressure, uric acid, high cholesterol levels and always increasing triglycerides, made further upsets in life. I’ve been regularly visiting senior and well renowned Doctors of well repute, in Islamabad and then in Karachi; but result almost remained the same to similar over 15 years. I did not like heavy doses of medicines those burn both, your stomach and your money. Then I quit going to Doctors but that either, did not work well. My weight and waist grew further along with knee crackling and low energy levels in almost all areas of my life.
One of my daughters and her spouse, live in Lahore, they invited me to see a Homeopathic Doctor in Lahore. That is how I visited Dr. Hussain Kaisrani is Sep. this year.
Dr. Kaisrani started diagnostic like any other Doctor, by looking at my reports, and history of illnesses. Then he started asking unique but interesting questions, that no other Dr. would ask generally. For example, He asked, if someone is throwing garbage into a canal and you happen to drive there, what will you do? “I’ll stop him from this ill practice” and then he asked, ” you like to keep new currency notes? “Surely I do and I always try to keep new ones and spend old ones” was my response. Then he asked another question by pulling his table drawer half-open, “What would you do to this drawer?. I surely would close it completely. It irritates me if things on your table or pictures on walls are not straight and organized. Then he asked few questions around my sleep and dreams etc.
He smiled as he has reached to roots of illness and yes he was very right, in doing so, as he proved later. He handed over 3 types of medicines, with an advise to use 2, and keep the 3rd one secured till next discussion. After every 2 weeks I give him feed back report, as how I’m feeling and what is not good with me, these days. He would send couple of medicines and just in 2 months, I felt myself reviving in all areas. That was bright and exciting result. And it still continues, till today. Three months have passed and I’ve witnessed great improvement, sometimes it becomes quick healing, as the lungs got improved in just one week (will you believe that?). Other areas are improving day by day. I wish the Dr. be available to all those human who are trying Dr. after Dr. and remain complaining around medicines and their poor results.
If you are sick of Doctors and sick of medicines; then try consulting Dr. Hussain Kaisrani, just once. And you will know it all, the different approach, the different method of treatment, and different result, altogether.
Thank you Dr. Kaisrani, hope to see you soon (in Dec.) In Sha Allah. Thanks again and,
Best Regards,
Related Posts
حسین قیصرانی سے آن لائن علاج – میرا تجربہ – عنبرین سہیل