Wednesday, October 30, 2019

سرجری، پریگنینسی، قبروں، خون اور موت کا ڈر، خوف اور فوبیا – کامیاب ہومیوپیتھک علاج (حسین قیصرانی)۔



سرجری، پریگنینسی، قبروں، خون اور موت کا ڈر، خوف اور فوبیا – کامیاب علاج (حسین قیصرانی)۔



(اس کیس کے رواں اردو ترجمہ اور کمپوزنگ کے لئے محترمہ مہر النساء کا شکریہ۔)
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ بڑی مشکل سے خود کو نیند کے حوالے کرنے میں کامیاب ہو پائی تھی۔ یکایک ایمبولینس کے ہوٹر کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اور ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ خوف کی ایک شدید لہر میرے بدن میں سرایت کر رہی تھی۔ ایمبولینس گھر کے قریب ہی رک گئی اور ہوٹر کی جگہ خواتین کی چیخ و پکار نے لے لی تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ سامنے والے گھر کے بزرگ اب نہیں رہے مگر مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ مَیں نہیں رہی۔ اگرچہ کھڑکی کا پردہ اس پار کے سارے منظر کو مجھ سے اوجھل رکھے ہوئے تھا لیکن تخیل کے پردے پر سارے منظر واضح تھے۔ یہ احساس شدید خوف ناک اور اذیت ناک تھا کہ چند لمحے پہلے موت کا فرشتہ بہت قریب تھا یا شائد اب بھی ہو۔
میری ریڑھ کی ہڈی جیسے منجمد ہو گئی تھی۔ چیخ و پکار اعصاب کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔ میں بھی چیخنا چاہتی تھی مگر آواز گنگ تھی۔ اعصاب جواب دے چکے تھے۔ ٹھنڈے پسینے کی بوندیں ماتھے پر پھسلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ میں حرکت نہیں کر پا رہی تھی۔ کیا موت کا فرشتہ جا چکا تھا یا میرے ارد گرد کہیں مجھے دیکھ رہا تھا۔ میری نظر میرے پیروں پر پڑی۔ میرے انگوٹھوں کو باندھ دیا گیا تھا۔ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ شاید ناک بھی بند تھی۔ لوگوں کا ہجوم میری گھٹن کو بڑھا رہا تھا۔ چیخ و پکار ماحول کو مزید وحشت ناک بنا رہی تھی۔
لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہی تھی۔ میں تو زندہ تھی۔
میں کیا کروں کہ میں ایسا نہ سوچوں۔
میرے شوہر کروٹ لیے سو رہے تھے۔ کاش میں انہیں آواز دے پاتی۔ کاش اپنی یہ کیفیت بتا پاتی۔ نہیں نہیں، میں نے سوچا، انہیں نہیں بتانا ورنہ وہ پاگل سمجھیں گے یا نفسیاتی مریض۔ وہمی تو مجھے وہ پہلے کہتے ہی ہیں۔
اس کرب ناک کیفیت میں کروٹیں بدلتے اور سوچتے خدا خدا کر کے صبح ہوئی تو جان میں جان آئی۔ فجر کی نماز پڑھتے ہی کام کاج میں لگ کر ذہن کو کچھ ادھر اُدھر کر پاتی۔ مگر اگر ذرا سی فرصت یا آرام سے بیٹھتی تو پھر یہی خیال اور سوچیں مجھے اپنے حصار میں لے لیتیں۔
کاش میں یہ سب نہ سوچوں؛ کاش یہ میرے بس میں ہو۔
میرا نام مسز اے ایم ہے اور میرا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ عمر 33 سال اور شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں۔ روداد سے میری ذہنی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ موت میری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور سب سے بڑا خوف تھا۔ اس ڈر بلکہ فوبیا کے اثرات تو پہلے بھی تھے لیکن چار سال قبل میرے انکل کی وفات سے یہ خوف میرے اوپر مکمل طور پر حاوی ہو گیا۔ موت سے قبل انکل کی حالت اور وفات کے بعد کے معاملات نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس دن کے بعد سے میں اپنے دماغ سے موت اور جنازے کا تصور کبھی نہیں نکال پائی۔ میں تصورات کے ایک ایسے بھنور میں پھنس چکی تھی جہاں صرف موت، جنازے، مردے اور قبرستان (Grave) دکھائی دیتے تھے۔ اسی خوف کی کیفیت کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو کسی نہ کسی طرح دھکا لگاتی رہی لیکن چند ماہ قبل میرے کزن کی وفات نے میرے دل و دماغ پر میرا کنٹرول بالکل ہی ختم کر دیا۔ کزن کی بیماری، وفات کا منظر اور بعد کی تمام رسومات نے مجھے شدید خوف میں مبتلا کر دیا۔ میں اب دن رات یہی سوچتی کہ ایک دن میرے ساتھ بھی یہی سب ہو گا۔ اس خوف نے میرے اندر اتنی مضبوطی سے جڑیں گاڑ لیں کہ میں اپنے تصور میں اپنی موت، غسل، جنازہ اور قبر کے معاملات تک بھی دیکھنے لگی۔ دماغ اور سوچوں پر میرا کوئی کنٹرول نہ تھا۔ موت، جنازہ، مردہ، قبر ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بھیانک الفاظ تھے جن کو سنتے ہی دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی اور پھر تصور میں سارے مناظر چلنے لگتے۔
قبر کا خوف اتنا شدید تھا کہ کہیں پر مٹی کا چھوٹا سا ڈھیر بھی دیکھتی تو قبر کا گمان ہوتا اور نظر کے سامنے اپنی قبر آ جاتی۔ اس وجہ سے میں نے کہیں آنا جانا اور لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ خواجہ محمد اسلام کی کتاب “موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہو گا؟” میں جو کچھ لکھا ہوا کبھی پڑھا تھا، وہ مجھے اپنے اوپر گزرتا نظر آتا۔
میرے ڈر، خوف اور فوبیاز (Fear and Phobia) نے میری ازدواجی زندگی کو بہت متاثر کیا۔ میرا خوف میری متوقع خوشگوار زندگی کا قاتل تھا۔ موت کا خوف آہستہ آہستہ حمل، بچے کی پیدائش (Childbirth)، سی سیکشن (C – Section / Cesarean Delivery / Caesarean Section)، سرجری (Operation / Surgery) یعنی پریگنینسی (Pregnancy) کے ساتھ فکس ہو گیا۔ دوران پیدائش (Child Birth) موت کا خوف میرے ماں بننے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا کھڑا تھا۔ میرے لئے اپنے “خاوند سے ملنا” سیدھا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔
مسجد میں کیے جانے والے موت اور جنازے وغیرہ کے اعلانات اور ایمبولینس کا ہوٹر میرے دماغ کو بہت بوجھل کر دیتا تھا کیوں کہ اس کے بعد منفی خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا جس کو جھٹکنا کسی طرح بھی ممکن نہ ہو پاتا۔ موت (Death) کے ساتھ ساتھ مجھے مزید بھی کئی انجانے خوف (Fear) لاحق تھے کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ بلاوجہ کا ڈپریشن (Depression)، اضطراب اور انگزائٹی (Anxiety)، ایک مستقل بے چینی اور پریشانی۔ مجھے لگتا تھا کہ مجھے کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو گی۔ اکثر اوقات مجھے کینسر کا خوف (Cancer Phobia / Carcinophobia) رہتا۔ میں خون دیکھ کر ڈر جاتی تھی (Haemophobia) ۔ کہیں بھی خون نہیں دیکھ سکتی تھی حتیٰ کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ یا کسی کاغذ اخبار پر نہیں۔
مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے علاج نہ کروایا تو میں پاگل ہو جاؤں گی۔ لیکن یہ ڈر بھی دل دہلا دیتا کہ اگر میں کسی ماہر نفسیات (Psychologist) کے پاس جاؤں گی تو لوگ مجھے نفسیاتی مریضہ کہیں گے۔ میں اس میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ لیکن اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں سچ مچ پاگل ہو جاؤں گی۔ میرا ذہنی سکون تباہ ہو چکا تھا۔ ان حالات میں میری نیند نہ ہونے کے برابر تھی۔ جاگتے ہوئے بھی قبریں اور جنازے نظر آتے۔ اور اگر کبھی آنکھ لگ جاتی تو بھی موت اور مردے دکھائی دیتے۔
میرے دماغ پر میرا کنٹرول ختم ہو چکا تھا۔ میرا ذہن مجھے مجبور کرتا تھا کہ میں صرف اپنی موت کا تصور کروں اور ہر لمحہ کروں۔
مجھے یہ وہم ہو گیا کہ دوسرے مرد میری طرف عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ڈر لگتا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے یا میرے پیچھے ہے۔ سوئے ہوئے، کچن میں یا نماز کے دوران یہ پریشانی بڑھ جاتی کہ میرے پیچھے کوئی ہے۔
میری بھوک اور پیاس بہت کم رہ گئی تھی۔ بال تیزی سے گر رہے تھے۔ چہرے پر رونق تو کیا بچتی؛ اب تو مستقل سہمے ہونے کا احساس رہتا۔ نزلہ زکام ہمیشہ سے تھا جس کے لئے انٹی الرجی یا انٹی بائیوٹیکس (Antibiotics) مستقل چلتے تھے۔ اب کمر اور جوڑوں میں میں درد رہنے لگا اور اُس کے لئے پین کلرز (Pain Killers) لیتی تھی۔ لیکوریا اور تکلیف دہ حیض بھی ایک مستقل مصیبت تھی۔
ٹی وی نہیں دیکھ سکتی تھی کیونکہ اگر کسی بلاسٹ یا حادثے کی خبر سن، پڑھ یا دیکھ لیتی تو حالت بگڑ جاتی۔ ہر وقت شدید ناامیدی، غم اور اداسی کی کیفیت رہنے لگی۔
میں نیٹ پر اور فیس بک پر اپنے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں لگی رہتی تھی۔ پھر ایک دن میری قسمت نے یاوری کی۔ فیس بک پر ڈاکٹر حسین قیصرانی کا پیج نظر سے گزرا۔ ہومیوپیتھک (Homeopathic)، کنسلٹنٹ (Consultant)، سائیکوتھراپسٹ (Psychotherapist) اور آن لائن علاج (Online Treatment) کی سہولت بھی۔ میں نے کئی کامیاب پڑھے اور لوگوں کے تبصرے اور ریویو بھی۔ مجھے اندھیرے میں امید کی کرن نظر آئی۔ میں نے واٹس ایپ پہ رابطہ کیا۔
حیرت انگیز طور پر ان کی طرف سے مثبت اور فوری جواب آیا۔ وہ عام ڈاکٹرز کی طرح نہیں لگے۔ اسی بات نے مجھے ان سے تفصیلی بات کرنے پر راضی کیا۔ میں نے ڈاکٹر حسین قیصرانی صاحب کو بتایا کہ میرے حالات سازگار نہیں کہ میں آپ سے فی الحال فون پر براہِ راست بات کروں۔ اس لیے میں نے اپنا کیس واٹس ایپ پر ہی بتایا۔ میں نے اپنی ساری کہانی بیان کی۔ اپنے خوف، ڈر، اندیشے، مایوسیاں، پریشانیاں، ذہنی حالت، انزائٹی، وہم اور جسمانی بیماریاں الغرض سب کچھ کھول کھول کر بتایا۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ میں زندگی کی طرف لوٹ آؤں گی۔ میں بہت خوش تھی جیسے مرتے کو زندگی ملنے والی ہو۔ میرا علاج شروع ہوا۔ نیند کچھ بہتر ہوئی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا کرشمہ ہو گیا ہو۔ دنیا کی نظر میں آئے بغیر میں ایک سائیکوتھراپسٹ سے سادہ ہومیوپیتھی (Homeopathy medicine) دوائیوں سے علاج کر وا رہی تھی۔ میرے اندر ایک امید جاگ گئی کہ میں ٹھیک ہو سکتی ہوں۔ مجھے اچھا محسوس ہونے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ میرا ڈر کم ہونے لگا۔ میں زندگی کی طرف لوٹنے لگی۔ بھوک لگنے لگی جس سے صحت میں بہتری آنے لگی۔ میں سوچتی کاش ڈاکٹر صاحب مجھے پہلے مل جاتے تو میں اس قدر شدید ذہنی عذاب سے نہ گزرتی۔
تین ماہ کے علاج سے میرا ڈر تقریباً ختم ہو گیا۔ خیالات کی آمد اور شدت دونوں ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ زندگی مسکرانے لگی۔ ڈاکٹر حسین قیصرانی کی محنت اور لگن کی بدولت اللہ تعالیٰ نے دکھ درد اور ہر وقت کے خوف سے نجات دلائی۔

Related Posts





سرجری، پریگنینسی، قبروں، خون اور موت کا ڈر، خوف اور فوبیا – کامیاب علاج (حسین قیصرانی)۔

No comments: