Thursday, July 28, 2016

صحت کی چند اہم باتیں جو آپ کوکوئی بھی ہسپتال کبھی نہیں بتائے گا


 کہا جاتا ہے کہ کچہری اور ہسپتال سے اللہ بچائے اور غلط نہیں کہا جاتا ۔ اچھا بھلا صحت مند آدمی جب معمولی مرض کے ساتھ ہسپتال پہنچتا ہے تو جانچ کے دوران ایسے ایسے امراض نکل آتے ہیں جو عمر بھر کے لیے اسے ہسپتال اور ڈاکٹروں کا "پکا گاہک " بنا دیتے ہیں ۔ بہرحال علاج کروانا بھی  ضروری ہے ۔ اس لیے چند اہم باتیں ایسی ہیں ،جو ہسپتال کا عملہ کسی کو بتاتا تو نہیں لیکن آپ کے لیے ان کے بارے میں جاننا از حد ضروری ہے تاکہ آپ اپنی صحت کے ساتھ جیب کو بھی بچا سکیں ۔
صفائی کا خیال: جراثیم ہر طرف ہیں اور یہ سفر بھی کرسکتے ہیں ، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی منتقل ہو جاتے ہیں ۔ اگر ڈاکٹر نے ہاتھ دھوئے ہوئے ہیں اور اس کا کوٹ بھی چمکتا دمکتا ہے تب بھی خیال رکھیں کہ کسی مریض کو دیکھتے ہوئے اس کے جراثیم بستر کو چھوتے ہوئے کوٹ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اس لیے بلیچ کے ذریعے بستر کی چادریں دھلوائیں ، ساتھ ہی ریموٹ ، دروازے کی ناب ، کمرے میں موجود فون اور بیت الخلا میں فلش کے ڈبے وغیرہ کو جراثیم کش سے صاف کروائیں ۔ کھانے سے پہلے ہاتھ لازمی دھوئیں ۔
توجہ مت ہٹائیں: جب نرس آپ کے لیے دوا تیار کر رہی ہو تو اس دوران ہرگز اس سے باتیں نہ کریں ۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ اس مرحلے پر جتنا زیادہ اس کی توجہ کسی دوسری سمت لے جائیں گے غلطی کا امکان اتنا ہی بڑھ جاتا ہے ۔ تحقیق کے مطابق ایک مرتبہ کام میں خلل ڈالنا غلطی کے امکان کو 12 فیصدبڑھا دیتا ہے ۔

ڈاکٹر سے پوچھیں: اگر کوئی آپریشن ہے تو ڈاکٹر سے لازمی پوچھیں کہ اس پورے عمل میں کون شامل ہوگا؟ جس ڈاکٹر پر آپ کو اعتماد ہے وہ خود جراحی کریں گے یا وہ اس کے بعد علاج کریں گے ۔
نرسوں پر دباؤ: ہسپتال کبھی نہیں چاہتے کہ آپ کو یہ بات پتا چلے کہ نرسوں پر ہر وقت زیادہ سے زیادہ مریضوں کو سنبھالنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے حالانکہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایک نرس کے ذمے جتنے کم مریض ہوں گے، ان کی صحت یابی کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے ۔ ہر وہ اضافی مریض جو نرس کے ذمے ڈالا جاتا ہے ، اس سے اس کے کم از کم ایک مریض کے مرنے کے امکانات میں 7 فیصد اضافہ ہوتا ہے ۔
سب سے اہم روپیہ: ہسپتالوں میں بڑے عہدوں پر فائز ڈاکٹروں کے لیے سب سے اہم زیادہ روپیہ کمانا ہوتا ہے ۔ صرف امریکا ہی کو دیکھ لیں ، جہاں ہسپتالوں کے سی ای اوز 4 سے 5 کروڑ روپیہ سالانہ کماتے ہیں ۔ وہاں ہر ہسپتال کے کل اخراجات کا 25 فیصد صرف انتظامی اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے ، جو دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے ۔
ڈاکٹروں پر دباؤ: کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ ڈاکٹروں پر ہمیشہ زیادہ سے زیادہ آپریشن کرنے کا دباؤ ہوتا ہے ۔ گو کہ بیشتر ہسپتال ڈاکٹروں کو مخصوص تنخواہ دیتے ہیں ، لیکن اگر وہ زیادہ آپریشن کریں تو بونس ملتا ہے ۔
ہمیشہ ڈاکٹر کی حمایت: ہسپتال ڈاکٹروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ان مریضوں کو لاتے ہیں جو ہسپتال کی کمائی کا ذریعہ ہیں ۔ اگر کسی مریض کو کسی ڈاکٹر سے شکایت بھی ہے تو یاد رکھیں کہ ہسپتال انتظامیہ اپنی مالی ترجیحات کی وجہ سے زیادہ تر ڈاکٹر ہی کی حمایت کرے گی ۔
جلد صحت یابی کا سوال: اچھے ہسپتالوں میں ایک دن کا بل کئی ہزار روپے ہوتا ہے اس لیے اسے ایک حد کے اندر رکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ جلد از جلد فارغ ہوجائیں ۔ جاننے کی کوشش کریں کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے اور ڈاکٹروں سے اس بارے میں پوچھیں کہ جلد صحت یابی کے لیے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔
بل کو بار بار چیک کریں: ہسپتالوں کے 80 فیصد بلوں میں غلطی ہوتی ہے اور مزیدار بات یہ ہے کہ ہر غلط بل میں پیسے زیادہ ہی لگائے جاتے ہیں ، کم نہیں۔ اس لیے اپنے بل کو احتیاط سے چیک کریں۔ ہوسکتا ہے اس میں ایسی دوائیں لکھی ہوئی ہوں جو آپ نے استعمال ہی نہیں کیں یا پھر انہیں اگلے روز بند کردیا گیا ہو، لیکن بل میں لکھی ہوئی ہوں ۔ بل تو صرف ایک پہلو ہے کوشش کریں کہ ہسپتال کے اخراجات پر انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کریں اور ان سے رعایت طلب کریں ۔
ٹیسٹ کیوں ضروری ہیں؟15  سے 30 فیصد علاج کے طریقے غیر ضروری ہوتے ہیں ، یعنی پہلے ٹیسٹ ، پھر دوائیں اور پھر طریقہ علاج ۔ کبھی کبھار تو مریض خود اس طریقے کو اختیار کرنے کا کہتا ہے اور کبھی یہ لکیر کا فقیر بننے کی وجہ سے اختیار کیا جاتا ہے ۔ جب بھی ڈاکٹر آپ کو ٹیسٹ لکھ کر دے تو سوال کریں کہ یہ کیوں ضروری ہے، اس سے کیا ہوگا اور اگر نہ کروایا جائے ، تو علاج پر کیا اثر پڑے گا؟
ہسپتال ہیں یا لگژری ہوٹل؟ ہسپتالوں کو اپنی آمدنی کھونے کا خوف ہے، چاہے وہ عام کلینک یا ہنگامی صحت کے مراکز اور نجی ڈاکٹروں کی وجہ سے ہو ۔ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہوٹلوں کے طرز پر چل رہے ہیں ۔ اب ہسپتالوں میں آبشاریں ہیں ، بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں ، باغیچے بنے ہوئے ہیں ، یعنی صحت کے شعبے کا پس منظر رکھنے والے افراد کو رکھنے کی بجائے وہ ہوٹلوں کے شعبے میں تجربہ رکھنے والے افراد کو لا رہے ہیں ۔
وی آئی پی ہسپتال سے دور رہیں: بڑے ہسپتالوں میں وی آئی پی مریض بھی آتے ہیں جن کو خاص علاج اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ، پھر چاہے انہیں پانی کا ایک گلاس درکار ہو یا پھر کوئی بہت ہی معمولی کام ، انہی نرسوں اور عملے کے ساتھ اس وی آئی پی کو بھی بھگتنا پڑتا ہے جو اولین ترجیح بن جاتا ہے اور یوں دوسرے مریضوں کا حق مارا جاتا ہے ۔
بے حس عملے سے محتاط: روزانہ کی بنیاد پر مریضوں اور میتوں کو دیکھ دیکھ کر ہسپتال کا عملہ احساس کھو بیٹھتا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ عملے کے اراکین مریضوں پر شرطیں لگاتے ہیں؟ جیسا کہ خون کے ٹیسٹ کی رپورٹ کیا آئے گی؟ یا پھر ابھی جو ایمبولنس داخل ہوئی ہے ، اس میں مریض کو کہاں زخم ہوگا؟ یہاں تک کہ خطرناک آپریشنز کے نتیجے کے حوالے سے سرجنوں میں بھی شرطیں لگتی ہیں ۔
ایک وقت میں دو آپریشن: جی ہاں! ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کا سرجن اسی وقت کسی دوسرے مریض کا آپریشن بھی کررہا ہو جب آپ بے ہوشی کے عالم میںآپریشن تھیٹر میں پڑے ہوں۔ پیچیدہ، طویل، انتہائی مشکل آپریشن کے دوران یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نصف سے زیادہ وقت آپ کا سرجن موجود نہ ہو بلکہ آپ دوسرے درجے کے عملے کے رحم و کرم پر ہوں ۔ اس لیے یہ معلومات پہلے سے حاصل کریں ۔
غسل خانے کا سامان اپنا لائیں: ہسپتالوں کے غسل خانے میں موجود سامان انتہائی غلیظ ہوتا ہے ، چاہے وہ بظاہر کتنا ہی صاف کیوں نہ لگتا ہو۔ اس لیے صابن سے لے کر ٹوائلٹ پیپر اور کنگھے سے لے کر روئی تک سب اپنی لے کر آئیں اور ہاں! تکیہ بھی ، یہ کہیں بہتر ہے ۔
ہسپتال کے کھانے سے دور رہیں:  یہ مت سمجھیں کہ یہ ہسپتال کا کھانا ہے اس لیے صاف ستھرا ہوگا پھر آپ کو اپنی طبیعت کے لحاظ سے کھانا درکار ہوگا ، ضروری نہیں کہ آپ ہائی بلڈ پریشر یعنی بلند فشار خون کے مریض ہوں ، تو آپ کو بغیر نمک کا سالن اور روٹی ملے۔ اس لیے کھانا ہمیشہ اپنے گھر کا بنا ہوا استعمال کریں ۔

Tuesday, July 26, 2016

Myths and Facts about PCOD / PCOS and Homeopathy

Skipped periods can give any woman on earth tremendous stress and anxiety, resulting in stress acne, hair fall, and weight issues. But is this really just a casual incidence wherein your chums feel too lazy to come or there’s some deeper pathology causing delayed menses? Think of PCOS if you have any of the above symptoms.
PCOD / PCOS (Poly Cystic Ovarian Disease/Syndrome) is an Endocrinol disorder in which the female hormones – oestrogen and progesterone are out of balance; resulting in formation of multiple cysts on surface of ovaries causing irregular menses, weight gain, excess facial and body hair, male pattern baldness, acne , infertility and certain masculine features in body.
It being a leading Endocrinol disorder in women in the reproductive age, there are many myths prevalent about this disease; partly due to lack of awareness; partly due to the varied presentation in women. This blog will clear all your doubts pertaining to PCOS.
Myth 1: PCOS is a rare disease
Fact: PCOS is, in fact, the most common Endocrinol disease affecting women in the reproductive age.
Approximately 5-10% of women between ages 18-44 in USA suffer from PCOS, i.e. one in every 8 to 10 women have PCOS. In India, approximately 18% women are suffering from PCOS as per the study.
Myth 2: PCOS affects women after the age of 30
Fact: PCOS can affect in any age group in the reproductive age. Patients as young as 13 and as old as 45 are diagnosed of PCOS.
Myth 3: I have regular periods, so I am ovulating normally and fertile.
Fact: Normally, oestrogen rises to a high level to produce thickening of inner lining of uterus and give rise to ovulation. But, in PCOS, the oestrogen may rise to a level to produce endometrial lining but insufficient enough to give rise to ovulation.
Myth 4: I don’t want children, so ovulation doesn’t matter to me. Why take treatment for PCOS?
Fact: Ovulation is essential irrespective of your future family planning. Absence of ovulation is one of the symptoms of PCOS. It signifies lack of progesterone which means you are at an increased risk of developing oestrogen-dominance conditions like fibroids, breast cancer, endometriosis, etc. Hence, treatment is required irrespective of whether you want to have children or not.
Myth 5: I have PCOD, but my hormone levels are normal. I need not worry.
Fact: Hormone tests are at times poor predictors as their levels depend on what day of the menstrual cycle is the blood checked; hence the broad normal range.
Also, PCOD is known to progress to PCOS, whereby it can give rise to diseases like Hypertension, high cholesterol, Diabetes, insulance resistance, infertility, depression, anxiety, and endometrial cancer in rare cases. Timely treatment can help in preventing complications and metabolic disorders.
Myth 6: Diabetes causes PCOS.
Fact: Diabetes does not necessarily lead to PCOS. In fact, PCOS causes insulin resistance due to high oestrogen levels, thereby resulting in development of Diabetes. Women having PCOS are at a high risk of developing Diabetes and need to be screened regularly for blood sugar levels. India is a diabetic country and PCOS is a pre diabetic state. So, women should be screened thoroughly for PCOS
Myth 7: I am fat, that’s why I have PCOS.
Fact: Rather, it’s the other way round. PCOD leads to weight gain and obesity.
Approximately 80% women suffering from PCOS are obese.
Myth 8: Losing weight will cure my PCOS
Fact: That’s not true. Losing weight will definitely help in improving fertility and symptoms of PCOS to an extent but PCOS requires internal correction and treatment. Losing weight is a crucial supportive line of treatment.
Myth 9: PCOD is incurable. Hormonal treatment and/or surgery are the only solution.
Fact: Homeopathy has an excellent role to play in PCOD. We have patients from across 188+ countries taking treatment for PCOD and depending on the size and number of the cysts; they get good recovery in irregular menses, acne, weight management and improves fertility as well. Surgery can very well be prevented in certain cases with correctly prescribed homeopathic medicines.
Myth 10: Homeopathic treatment for PCOD has side effects
Fact: Allopathic line of treatment for PCOD consists of hormonal pills, which if taken for over a long period of time, can cause side effects like gall stones, hypertension , blood clots, hypercholesterolaemia, osteoporosis, etc.
Homeopathic treatment on the other hand, is very safe and does not have any side effects.
I hope this blog helps in enlightening your knowledge about PCOS. Have no fears if you are diagnosed of PCOS. Homeopathy has an answer to your sufferings. Welcome to the most gentle way of healing.
(Dr Amrita Utekar)

Saturday, July 23, 2016

Testimonials and Feedback from patients of online homeopathic treatment






-----------------------------------------------------------------------------------------------------------




-----------------------------------------------------------------------------------------------------------


-----------------------------------------------------------------------------------------------------------


-----------------------------------------------------------------------------------------------------------




Thursday, July 21, 2016

Why Some People Handle Stress Better Than Others



(Mandy Oaklander)

A quick scan of any recent headline would reveal that humans live in a highly stressed world, full of violence, terror and hate. Sometimes, it’s a wonder we can go on with our lives at all. (If that feels like you, see this recent piece about How to Cope When the World Feels Like Total Chaos.)

“There is a drive to cope and to survive,” says Rajita Sinha, director of the Yale Stress Center and lead author of a new study published in the journal Proceedings of the National Academy of Sciences. Yet we all respond to stress differently, and some of us are more resilient than others.

But why? Sinha and her colleagues wanted to look inside people’s brains during a stressful situation to see if anything special was happening to help people cope better with stress. They recruited 30 healthy people and put them in an fMRI scan session for six long minutes, during which they were shown either stressful or neutral images. “When you get stressed, it’s not brief—it goes on for a little bit,” Sinha says. “And that’s the state in which the brain has to figure out what to do.” The stressed group was shown 60 scary, violent images, like people being shot, maimed, stabbed and chased. The control group saw neutral images like tables, chairs and lamps.

The researchers later asked people about some of the ways they cope with stress, including alcohol intake, eating behaviors, and how often they get into arguments.

During stress, the researchers saw something interesting happening in one particular area of the brain: the ventral medial prefrontal cortex, a region involved in emotional regulation and detecting one’s own internal state, like hunger, craving and wanting. People who had more neuroflexibility and neuroplasticity in this region were also likely to be binge drinkers and emotional eaters, and they were less likely to respond to stress in an emotionally destructive way, Sinha says. “The greater the magnitude of the change in the neural signal, the more active copers they were,” she says. The results suggest that this part of the prefrontal cortex is involved in wresting back control during times of stress—a key aspect to resilience.

More research is needed to see how to increase flexibility in this region, but Sinha believes theirs is a first step in understanding resilience. “We have a natural circuitry to try to regain control and to be resilient,” Sinha says. “I think it’s tied to the survival processes that are hardwired, and this is what we’re tapping into.”


Tuesday, July 19, 2016

The Future of Homeopathy – A Perspective View



There is an overall impression that homeopathy is used today by millions of people and practiced by hundreds of thousands of practitioners all over the  world … which is true!  Whether the practitioners are capable of using this new force in medicine in an appropriate way is a totally different story.  The homeopathic field of medicine is so open to all kind of interventions, distortions and bad practice that its original form is almost totally masked or lost and its effectiveness reduced to a mere 10% of its capabilities.  This minimal10% derives mainly from a small group of practitioners that have followed the original teachings of S. Hahnemann and the right lines of applications. The effect of those practitioners in their private practice is near 70-80% of success. These practitioners were recognised as classical homeopaths, but soon a lot of intruders attached to their name this qualification in order to confuse the public and get a portion of the clientele.
Though Homeopathy’s overall effectiveness is low due to its bad application by most of its practitioners, in the minds of the people it has been established as a form of medicine that is better and more effective than conventional medicine with its side-effects and complications. The main reason for this impression is that it has been proven effective in conditions of chronic diseases that have no solution in conventional medicine.  Many successful cases have been reported primarily by classical homeopaths who knew how to use this new force in medicine in an appropriate way.
It is therefore an easily predictable fact that what will follow is an expansion of the use of homeopathy. What form this expanding trend will take, is something we have yet to see. What is certain, is that from now on, homeopathy will progress to a new status within the medical arena. The reason is simple – it is a form of medicine that is needed badly by a certain percentage of global  humanity which is already deeply sick with chronic conditions. Sick and suffering people have discovered its potential and nothing can stop a useful medical system which is so much superior to its existant counterpart.
In 1915, with the death of the famous American homeopath James Tyler Kent, homeopathy declined  suddenly and steeply. Maybe today, 200 years later, the the tide will turn in the opposite direction.
Who is practicing?
The world situation, looked upon from the side of practitioners is a bizarre one. Realising the demand from the public, a lot of practitioners who were connected with medicine, even loosely, are trying to apply it either professionally or in some form of self help. On the other hand,  some new methods and ideas as to how it could be made easier and used more simply, have arisen, in order to fill a tremendous gap in education that exists today. In their ignorance practitioners of all types have fallen for these easier ways but have been soon disappointed. They then try another way until they are again disappointed and so on. By the time such practitioners have found out the correct way of applying this science, they have lost a lot of years, a lot of effort and a lot of money.
Actually the correct studying of this methodology is a rigorous one and requires all the strength and enthusiasm on the part of the student, in order to overcome the difficulties in learning it. Students in the past used to always be in the periphery of medicine but of late most practitioners who approach serious institutions of learning are medical doctors and many of them with a speciality already. But such brains are already tired as they are overloaded with information and the space in their memory capacity is seriously reduced.
Another issue that MD’s are facing is, that as soon as they learn homeopathy’s rudimentary elements, they rush to practice and soon find themselves inundated with patients.  Two years of learning that signals the completion of the basic education seems all they need in order to start practicing, but actually the real time needed for expertise should have been 5-7 years and this under supervision.  The physician cannot unfold all the tremendous possibilities that exist with this more thorough learning.
In these efforts of properly educating doctors, I include several medical universities (Russia), Colleges (India, Pakistan, South America), institutions (Europe) and Academies that provide such solid knowledge like that provided by the International Academy of Classical Homeopathy from Greece in its “E-Learning Program in Classical Homeopathy”, which is considered perhaps the best of its kind according to the evaluation of its students. This program is the most complete and the most professional and has prepared very many excellent practitioners.
The ideal education of medical doctors still remains the major challenge for all Medical Schools, Universities, institutions and Academies. So far it is established beyond any doubt that homeopathy is needed for better health in the world. What remains now is to find a way of educating correctly and thoroughly all prospective practitioners. The problem is that governments will not rush in support of such an idea.
Education of doctors
If we need a better state of health, society has to take care of the education of the doctors. The system as it stands today forbids such a development. Medical institutions of course are out of the questions. They will never undertake such an initiative as they are usually run financially with the support of the pharmaceutical industry which sponsors all their research. Those who really have an interest in promoting higher education for medical doctors in such a low cost medical system like homeopathy, are the public sectors of the insurance institutions and of course the private insurance companies. The insurance systems are at this moment on the point of collapse due to huge  expenses, so a change will be forced upon them soon.
In a practical manner this is my proposal :
One, or even better a few private insurance companies together should organise a congress to which will be invited to present evidence:
  1. the CEO’s of insurance companies
  2. the directors of hospitals, public and private
  3. Representatives from the ministries of health from all over Europe, Russia and USA

The insurance companies are the only institutions that care about the mounting cost of medical coverage and if they do not do something soon, it will be threatened with bankruptcy.  We gather the best of our cases recorded on videos and present to them thousands of impressive cures from all kinds of pathology, from severe gangrene cases before amputation to sever neurodermatitis, to gingivitis, to psoriasis, to asthmatic conditions, to neuromuscular cases, mental diseases, ulcerative colitis etc. etc.
Courtesy: hpathy.com

Sunday, July 10, 2016

کیا ’میڈی ٹیک‘ آلات ڈاکٹر کا متبادل ہیں؟

سوچیں کہ آپ کا بچہ ایک بہت ہی نرم ملائم ٹیڈی بیئر سے کھیل رہا ہو اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد بچے کی جسمانی حرارت آپ کے موبائل فون پر کسی جادو کی طرح ظاہر ہو جائے۔

یہ ایک عام ٹیڈی بیئر نہیں ہے بلکہ یہ تشخیص کے لیے یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے بچے پریشان نہیں ہوتے۔
جب آپ بیئر کے پنجے کو دباتے ہیں تو اس میں موجود سینسر جسم کا درجہ حرارت لینے کے بعد وائر لیس کے ذریعے سمارٹ فون پر بھیج دیتا ہے۔
اس طرح کے کھلونے نما تشخیصی آلات میں ایک طویل قامت زرافہ اور بہادر شیر بھی ہے جو جسم میں دل کی حرکت اور خون میں آکسیجن کی سطح کو چانچتا ہے۔
کروئشیا سے تعلق رکھنے والے سابق انفومیٹک کی طالبہ کو ایسے آلات بنانے کی سوجھی اور انھوں نے لندن، کیلفورنیا اور زاغرب میں ’ٹیڈی اینڈ دی گارڈین اینیمل‘ کے نام سے ایک کمپنی کھولی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جوسیپا میجک نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ اچھے ڈاکٹرز بھی بچوں کا معائنہ کرتے ہوئے ماں باپ کے جذباتی لگاؤ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔‘

Image copyrightDORIJAN KLJUN

وہ کہتی ہیں کہ مجھے میڈیکل ٹیکنالوجی یا ’میڈی ٹیک‘ بہت ہی منافع بخش کام لگا۔ ’سینسر کی اور دیگر پرزوں کی لاگت کم ہو رہی ہے اور اس میدان میں جدت آ رہی ہے۔‘
اس کام میں وہ اکیلی نہیں ہیں وہ اُن بہت سے تاجروں میں سے ایک ہیں جن کی حوصلہ افزائی یورپی یونین نے کی ہے۔
سینسرز کی قیمت میں کمی اور وائر لیس کیمونیکشن میں اضافے نے اس طرح کے نئے کاروبار کی پنپنے اور ان میں سرمایہ کاری کے مواقعوں کو بڑھایا ہے۔
ہیلتھ انسائٹ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں میڈی ٹیک سٹارٹ اپ میں چھ ارب یورو کی سرمایہ کاری ہوئی ہو جبکہ سنہ 2010 میں اس میں سرمایہ کاری کی شرح ایک ارب یورو تھی۔
ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ کریس پینل کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں صحتِ عامہ کے شعبے میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔
’صارفین کے استعمال میں آنے والی ٹیکنالوجیز، جیسے سمارٹ فونز، پہننے والے آلات اور موبائل ہیلتھ ایپس کے ذریعے افراد اپنے صحت کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔

لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مختلف ممالک میں بچوں کے لیے کھلونا نما تشخیصی آلات کے لیے سکیورٹی ریگولیشن مختلف ہیں۔

باڈی سوٹ

اسی طرح ایک کمپنی ہے جو باڈی تھرمل سوٹ بناتی ہے جس کو پہن کر بچوں کی جسمانی حرارت کا پتہ لگایا جا سکتا۔ یہ کمپنی 10 ہزار یورو کی سرمایہ کاری سے شروع ہوئی تھی۔
باڈی سوٹ پہننے والے بچے کا جسمانی درجہ حرارت اُس کے والدین یا پھر ڈاکٹر کے فون پر آ جاتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک تجاوز کر جانے پر آلارم بجتا ہے۔
تھرمل باڈی کو ایسا بنایا گیا ہے کہ اسے پہننے کے فوری بعد اس کا سنسر ان ہو جاتا ہے اور پھر خود بخود بند ہو جاتا ہے۔
کمپنی کے مالک کا کہنا ہے کہ انھیں ایسے تشخیصی سوٹ کی فروخت کے لیے یورپی یونین سے سرٹیفکیٹ ملنے کا انتظار ہے۔

بہت میٹھا نہیں

ایڈورڈو ہورجنسن نے ایک دس سالہ بچی کو ذیابیطس کا شکار ہوتے دیکھ کر میڈی ٹیک آلہ بنایا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ بچی انسولین کا پمپ استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ سکول میں ہر کوئی اُس کا مذاق اڑاتا تھا۔
اس لیے اُنھوں نے ایسی مفت ایپلکیشن بنائی جو والدین کو خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
اس ایپ کو بغیر سرجری کیے ایک ایسے پیچ سے منسلک کیا جاتا ہے جس سے انسانی لبلبے کے کام کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایپ الگورتھم کے ذریعے انسان کے خون میں شوگر اور انسولین کی سطح کو مانیٹر کرتا ہے اور ایسے عناصر جن سے شوگر کم ہوتی ہے جیسے ورزش اور خوراک کے بارے میں مشورے بھی دیتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ کو فون پر ایک پیغام ملتا ہے جس میں آپ کو کاربوہائیڈریٹس کم کرنے، ورزش کرنے اور انسولین کی مقدار بڑھانے کے بارے میں تجویز دی جاتی ہے۔
اس موبائل ایپلکیشن کی باقاعدہ لانچنگ اکتوبر سنہ 2016 سے پہلے نہیں ہو سکتی ہے۔ اس ایپ کے موجد ایڈورڈو ہورجنسن ایک ڈاکٹر اور اینڈوکرنالوجی میں سپیشلائیزیشن کر رہے ہیں۔


دماغی اختراع

گو کہ تمام تھراپیز میں ادویات استعمال نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ڈنمارک سے تعلق رکھنے والی کم بیڈن نے دماغی تربیت کے لیے ایک ایپ بنایا ہے جس سے لوگوں میں ڈیپریشن اور دماغی امراض میں کمی کرنے میں مدد ملے گی۔
اس منصوبے کو کوپن ہیگن یونیورسٹی نے بھی فنڈ کیا ہے جس کا مقصد مختلف گیمز اور ورزش کے ذریعے لوگوں میں یادداشت کو بڑھانا اور مسائل حل کرنا ہے۔
اس ایپ کے شریک بانی کا کہنا ہے کہ دنیا میں 12 لاکھ افراد اس ایپ کو استعمال کر رہے جن میں ہسپتال اور بحالی کے مراکز بھی شامل ہیں۔
کمپنی کا ماننا ہے کہ انسانی دماغ کو بھی جسم کی طرح ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔


صحت مند سرمایہ کاری

لیکن ٹیکنالوجی سے لیس خود کار تشخیصی آلات کے استعمال سے کچھ خطرات بھی ہیں۔
تجزیہ کار مسٹر پینل کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ پر سر درد اور کمر کے درد کا علاج جاننا ڈاکٹر کے پاس بیٹھ کر انتظار کرنے سے زیادہ آسان ہے۔‘
بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو ایک نمک کی چٹکی سے نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنا علاج خود شروع کر دیتے ہیں۔ بعض افراد علامات ظاہر ہونے کے بعد سمجھتے ہیں کہ یہ زیادہ پریشان کن نہیں ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
فٹنس جانچنے کے لیے پہننے والے آلات جیسے ’فٹ بٹ‘، ’جابون‘ اور ’گارمین‘ سمیت دوسرے آلات کی مانگ بہت زیادہ ہے۔
فی الوقت ان آلات کو متعارف کروانے کے لیے میڈیکل ریگولیٹر کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف ڈیٹا ہی اکٹھا کرتے ہیں۔
لیکن ایسے تشخیصی آلات اور صحت کے ایپس اور طبی مشورے دینے والے آلات کے مارکیٹ میں آنے سے کچھ مسائل ضرور پیدا ہوں گے۔
اب میڈی ٹیک آلات میں وسعت سے ریگولیٹری باڈیز کے لیے ایک نیا چیلنج سامنے آیا ہے۔
ایک طرف تو کم علمی بھی خطرناک ہو سکتی ہے جبکہ دوسری جانب میڈی ٹیک کے میدان میں وسعت سے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا اور پہلے سے بوجھ تلے دبے صحتِ عامہ کے نظام پر دباؤ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔






Courtesy: BBC


کیا ’میڈی ٹیک‘ آلات ڈاکٹر کا متبادل ہیں؟

سوچیں کہ آپ کا بچہ ایک بہت ہی نرم ملائم ٹیڈی بیئر سے کھیل رہا ہو اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد بچے کی جسمانی حرارت آپ کے موبائل فون پر کسی جادو کی طرح ظاہر ہو جائے۔

یہ ایک عام ٹیڈی بیئر نہیں ہے بلکہ یہ تشخیص کے لیے یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے بچے پریشان نہیں ہوتے۔
جب آپ بیئر کے پنجے کو دباتے ہیں تو اس میں موجود سینسر جسم کا درجہ حرارت لینے کے بعد وائر لیس کے ذریعے سمارٹ فون پر بھیج دیتا ہے۔
اس طرح کے کھلونے نما تشخیصی آلات میں ایک طویل قامت زرافہ اور بہادر شیر بھی ہے جو جسم میں دل کی حرکت اور خون میں آکسیجن کی سطح کو چانچتا ہے۔
کروئشیا سے تعلق رکھنے والے سابق انفومیٹک کی طالبہ کو ایسے آلات بنانے کی سوجھی اور انھوں نے لندن، کیلفورنیا اور زاغرب میں ’ٹیڈی اینڈ دی گارڈین اینیمل‘ کے نام سے ایک کمپنی کھولی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جوسیپا میجک نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ اچھے ڈاکٹرز بھی بچوں کا معائنہ کرتے ہوئے ماں باپ کے جذباتی لگاؤ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔‘


Image copyrightDORIJAN KLJUN

وہ کہتی ہیں کہ مجھے میڈیکل ٹیکنالوجی یا ’میڈی ٹیک‘ بہت ہی منافع بخش کام لگا۔ ’سینسر کی اور دیگر پرزوں کی لاگت کم ہو رہی ہے اور اس میدان میں جدت آ رہی ہے۔‘
اس کام میں وہ اکیلی نہیں ہیں وہ اُن بہت سے تاجروں میں سے ایک ہیں جن کی حوصلہ افزائی یورپی یونین نے کی ہے۔
سینسرز کی قیمت میں کمی اور وائر لیس کیمونیکشن میں اضافے نے اس طرح کے نئے کاروبار کی پنپنے اور ان میں سرمایہ کاری کے مواقعوں کو بڑھایا ہے۔
ہیلتھ انسائٹ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں میڈی ٹیک سٹارٹ اپ میں چھ ارب یورو کی سرمایہ کاری ہوئی ہو جبکہ سنہ 2010 میں اس میں سرمایہ کاری کی شرح ایک ارب یورو تھی۔
ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ کریس پینل کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں صحتِ عامہ کے شعبے میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔
’صارفین کے استعمال میں آنے والی ٹیکنالوجیز، جیسے سمارٹ فونز، پہننے والے آلات اور موبائل ہیلتھ ایپس کے ذریعے افراد اپنے صحت کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔


Image 

لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مختلف ممالک میں بچوں کے لیے کھلونا نما تشخیصی آلات کے لیے سکیورٹی ریگولیشن مختلف ہیں۔

باڈی سوٹ

اسی طرح ایک کمپنی ہے جو باڈی تھرمل سوٹ بناتی ہے جس کو پہن کر بچوں کی جسمانی حرارت کا پتہ لگایا جا سکتا۔ یہ کمپنی 10 ہزار یورو کی سرمایہ کاری سے شروع ہوئی تھی۔
باڈی سوٹ پہننے والے بچے کا جسمانی درجہ حرارت اُس کے والدین یا پھر ڈاکٹر کے فون پر آ جاتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک تجاوز کر جانے پر آلارم بجتا ہے۔
تھرمل باڈی کو ایسا بنایا گیا ہے کہ اسے پہننے کے فوری بعد اس کا سنسر ان ہو جاتا ہے اور پھر خود بخود بند ہو جاتا ہے۔
کمپنی کے مالک کا کہنا ہے کہ انھیں ایسے تشخیصی سوٹ کی فروخت کے لیے یورپی یونین سے سرٹیفکیٹ ملنے کا انتظار ہے۔

بہت میٹھا نہیں

ایڈورڈو ہورجنسن نے ایک دس سالہ بچی کو ذیابیطس کا شکار ہوتے دیکھ کر میڈی ٹیک آلہ بنایا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ بچی انسولین کا پمپ استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ سکول میں ہر کوئی اُس کا مذاق اڑاتا تھا۔


Image copyright

اس لیے اُنھوں نے ایسی مفت ایپلکیشن بنائی جو والدین کو خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
اس ایپ کو بغیر سرجری کیے ایک ایسے پیچ سے منسلک کیا جاتا ہے جس سے انسانی لبلبے کے کام کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایپ الگورتھم کے ذریعے انسان کے خون میں شوگر اور انسولین کی سطح کو مانیٹر کرتا ہے اور ایسے عناصر جن سے شوگر کم ہوتی ہے جیسے ورزش اور خوراک کے بارے میں مشورے بھی دیتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ کو فون پر ایک پیغام ملتا ہے جس میں آپ کو کاربوہائیڈریٹس کم کرنے، ورزش کرنے اور انسولین کی مقدار بڑھانے کے بارے میں تجویز دی جاتی ہے۔
اس موبائل ایپلکیشن کی باقاعدہ لانچنگ اکتوبر سنہ 2016 سے پہلے نہیں ہو سکتی ہے۔ اس ایپ کے موجد ایڈورڈو ہورجنسن ایک ڈاکٹر اور اینڈوکرنالوجی میں سپیشلائیزیشن کر رہے ہیں۔

دماغی اختراع

گو کہ تمام تھراپیز میں ادویات استعمال نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ڈنمارک سے تعلق رکھنے والی کم بیڈن نے دماغی تربیت کے لیے ایک ایپ بنایا ہے جس سے لوگوں میں ڈیپریشن اور دماغی امراض میں کمی کرنے میں مدد ملے گی۔
اس منصوبے کو کوپن ہیگن یونیورسٹی نے بھی فنڈ کیا ہے جس کا مقصد مختلف گیمز اور ورزش کے ذریعے لوگوں میں یادداشت کو بڑھانا اور مسائل حل کرنا ہے۔
اس ایپ کے شریک بانی کا کہنا ہے کہ دنیا میں 12 لاکھ افراد اس ایپ کو استعمال کر رہے جن میں ہسپتال اور بحالی کے مراکز بھی شامل ہیں۔


Image copyrig

کمپنی کا ماننا ہے کہ انسانی دماغ کو بھی جسم کی طرح ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔

صحت مند سرمایہ کاری

لیکن ٹیکنالوجی سے لیس خود کار تشخیصی آلات کے استعمال سے کچھ خطرات بھی ہیں۔
تجزیہ کار مسٹر پینل کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ پر سر درد اور کمر کے درد کا علاج جاننا ڈاکٹر کے پاس بیٹھ کر انتظار کرنے سے زیادہ آسان ہے۔‘
بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو ایک نمک کی چٹکی سے نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنا علاج خود شروع کر دیتے ہیں۔ بعض افراد علامات ظاہر ہونے کے بعد سمجھتے ہیں کہ یہ زیادہ پریشان کن نہیں ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
فٹنس جانچنے کے لیے پہننے والے آلات جیسے ’فٹ بٹ‘، ’جابون‘ اور ’گارمین‘ سمیت دوسرے آلات کی مانگ بہت زیادہ ہے۔
فی الوقت ان آلات کو متعارف کروانے کے لیے میڈیکل ریگولیٹر کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف ڈیٹا ہی اکٹھا کرتے ہیں۔
لیکن ایسے تشخیصی آلات اور صحت کے ایپس اور طبی مشورے دینے والے آلات کے مارکیٹ میں آنے سے کچھ مسائل ضرور پیدا ہوں گے۔
اب میڈی ٹیک آلات میں وسعت سے ریگولیٹری باڈیز کے لیے ایک نیا چیلنج سامنے آیا ہے۔
ایک طرف تو کم علمی بھی خطرناک ہو سکتی ہے جبکہ دوسری جانب میڈی ٹیک کے میدان میں وسعت سے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا اور پہلے سے بوجھ تلے دبے صحتِ عامہ کے نظام پر دباؤ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔






Courtesy: BBC


Thursday, July 7, 2016

The 10 worst toxins hidden in supplements and health foods




I’m absolutely shocked at how many people don’t investigate what’s really in the supplements and food they swallow. When something is sold as an herb, vitamin, superfood or supplements, they think it’s automatically safe. And while the natural products industry has a truly remarkable safety record — especially in contrast to the massive number of deaths caused by pharmaceuticals — it still suffers from a lot of hidden toxins that are routinely used throughout the industry.
I know this because I’ve been an investigative journalist and activist in the natural health industry for over a decade. Natural News is arguably the most-read natural health news website in the world, reaching millions of readers a month. I’ve walked the floors of countless trade shows, conducted hundreds of interviews and spent tens of thousands of dollars on laboratory tests to determine what’s in these products. On top of that, I’m deep into organic product formulations and certified organic food production, serving as the supervisor of a USDA-certified organic food production and packing facility.
When I look around the natural products industry, I see examples of super honest, high-integrity companies like Nature’s Path and Dr. Bronner’s. I also see an alarming number of cheats, crooks and charlatans who are only involved in the industry to profit from the explosion of interest in health supplements. In truth, some supplements are downright dangerous to your health. My role as a journalist and activist is to help you tell the difference between products that are GOOD for you vs. products that might actually be toxic. Because ultimately, I want you to be healthy, vibrant, intelligent and active. I want you to enjoy life and improve the quality of your life.
Be prepared to be shocked in reading what follows. After reviewing this list, you will probably throw out quite a few products and supplements in your refrigerator and pantry. Very few people are willing to tell you the truth revealed here, so some of this may come as a complete shock (see #1 and #2, below).

Toxic Vitamins, Supplements, and Health Food

#1) Maltodextrin (from GM corn)
Let’s start out with the big one first: If you pick up a natural product and the ingredients list says “maltodextrin,” chances are very high that the maltodextrin in the product is derived from Monsanto’s GM corn.
Virtually all the maltodextrin used throughout the natural products industry is genetically modified. Products that are certified USDA organic, however, are not using GMO maltodextrin.
The non-GMO, non-corn replacement for maltodextrin derived from GM corn is tapioca maltodextrin, and you’ll find tapioca starch / maltodextrin in many certified organic, non-GMO products. Corn maltodextrin should be avoided unless it’s certified USDA organic. Look for tapioca maltodextrin instead (or no maltodextrin at all).
#2) Vitamin C / acorbic acid (from GM corn)
Here’s another whopper that’s sure to open some eyes: Nearly all the “vitamin C” sold in vitamins across America right now is derived from GMO corn.
This means that many of the supplements sold at Whole Foods, the vitamins sold on Amazon.com, the pills at your local pharmacy, and especially the products at the grocery store are (nearly) all routinely made with genetically modified vitamin C. It’s typically called “ascorbic acid,” and nearly 100% of the ascorbic acid used in the natural products industry is derived from GMOs.
Sourcing non-GMO vitamin C requires you to go outside the United States. There is no existing supply chain of certified organic, non-GMO ascorbic acid available anywhere in America (at least not to my knowledge). You can’t even run batches of non-GMO ascorbic acid production in the USA because all the facilities are contaminated with residues of GM corn.
Rest assured that all those cheap “vitamin C” pills sold at retail are derived from genetically modified corn.
#3) Hexane-extracted soy and rice proteins
Nearly 100% of the “natural” soy proteins sold in the USA are extracted in China using a hexane extraction method.
CLARIFICATION (updated): The primary manufacturer and distributor of brown rice protein in the USA, which imports brown rice protein processed in China, insists that hexane has never been used in the extraction of their product, not in the conventional brown rice protein nor their organic brown rice protein.
Their brown rice protein is a “hexane-free, non-GMO, Prop 65 compliant, Gamma Oryzanol-rich whole grain Oryzatein powder” and the manufacturer is Axiom. They supply a lot of the brown rice protein to numerous sources in the USA, and this is the best brown rice protein product available today, partially because it is NOT hexane extracted.
There is brown rice protein that’s hexane extracted in China, however, but that’s not carried by Axiom. So if you’re buying anything with brown rice protein, make sure it’s sourced from Axiom and not from another source that uses hexane. I also encourage you to eat only certified organic brown rice protein, not conventional brown rice protein.
Anything from China, by the way, should be double checked for metals content just to make sure it’s all clean. This is true across the board for all food products from China, not just brown rice protein. We have consistently found nutritional products from China to be contaminated with worrisome levels of metals, which is why I personally won’t put my brand name on anything from China other than a few exceptions that are well-tested such as goji berries (grown in the Himalayas). The Axiom company says their brown rice protein tests completely clean, but until I run those tests myself, I can’t say for sure whether I concur with the claims.
What the industry really needs right now is a U.S. manufacturer of brown rice protein, for which a multi-million dollar market already exists. If Axiom would find a certified organic U.S. grower for its brown rice protein, the company would receive a huge endorsement from Natural News and probably find a whole new wave of demand from consumers who want U.S. grown products. Texas, by the way, produces a lot of organic brown rice. Surely there must be a way to extract the protein in America and not have to go all the way to China to find this.
Hexane is a highly explosive chemical. It is not only extremely hazardous to the environment, there may also be trace amounts of hexane left remaining in the resulting protein products. My understanding is that hexane extraction is not allowed in certified organic proteins, so if you have a choice, go for certified organic instead of just “natural” (which means nothing anyway).
Hexane extraction, by the way, is also used in the manufacture of textured vegetable protein (TVP).
#4) High levels of Aluminum in detox products
Natural News helped expose high aluminum levels (over 1200ppm) in a popular detox liquid, causing the main U.S. distributor to issue a “recall” notice and provide over $1 million in refunds to customers.
The manufacturer of this product, Adya Clarity, intentionally and knowingly deceived consumers by mislabeling the product and not mentioning the 1200ppm of aluminum it contained. The FDA seized some of the products and ran its own lab tests, confirming the high aluminum level as well as identifying multiple labeling violations.
Adya Clarity is just one of many so-called “detox” products containing alarming levels of aluminum and other metals. Ingesting these in order to “detox” your body may be harmful to your health. This experience also proves you can’t always trust health products sold through online webinars, where manufacturers can ignore labeling laws and fabricate false claims. Buyer beware when it comes to metals in detox products that claim seemingly magical results.
#5) Lead and arsenic in herbs from China
China is the most polluted nation on the planet (by far), yet many fruits, vegetables and herbs are grown in China and exported to North America for use in natural products and supplements.
High levels of lead and arsenic are routinely found in various food, supplement and herbal products from China. I’m not concerned about 1ppm or lower, by the way, of heavy metals like lead and mercury. Even aluminum isn’t necessarily a problem when found organically grown inside foods that test at higher levels such as 150ppm. But when lead, arsenic, mercury and cadmium get to high saturation levels (or are present in inorganic forms), it makes the products potentially a source of heavy metals poisoning for consumers.
Astonishingly, many of the small and medium-sized companies that import and retail products from China conduct no metals testing whatsoever. I know this as a fact because I’ve talked to people doing this.
#6) Inorganic minerals in cheap vitamins
Would you eat iron filings and call it nutrition? The majority of people don’t know that most of the cheap vitamins sold today are made with iron filings. “Scrap metal,” almost.
The calcium found in cheap vitamins is often just ground-up seashells, and magnesium is often sold as cheap magnesium oxide which may be completely useless to your body’s cells. If you’re buying mineral supplements, you may be wasting your money unless the minerals are in the right form: Magnesium orotate or malate, for example.
When it comes to mineral supplements, you’ll often find trace levels of scary things like barium and lead in liquid supplements, but these are typically at such low levels (ppb) that they are no real concern. But the No. 1 best source for all minerals is, not surprisingly, fresh plants. If you really want to boost your minerals, feed ‘em to sprouts or garden plants, then eat or juice those plants. Forget the supplements. Your body wants “organic” minerals from plants, not inorganic minerals from rocks.
#7) Carrageenan?
The Cornucopia Institute, a highly-effective food activism group that we’ve long supported, recently published a warning about carrageenan in foods. Cornucopia says carrageenan is linked to “gastrointestinal inflammation, including higher rates of colon cancer, in laboratory animals.”
It goes on to report:
Given its effect on gastrointestinal inflammation, Cornucopia urges anyone suffering from gastrointestinal symptoms (irritable bowel syndrome/IBS, spastic colon, inflammatory bowel disease, chronic diarrhea, etc.) to consider completely eliminating carrageenan from the diet to determine if carrageenan was a factor in causing the symptoms.
Personally, I have never had any problem with carrageenan, and given that it’s derived from seaweed, I also didn’t mind the source. I actually consume quite a lot of carrageenan in Blue Diamond almond milk, which I drink when I’m too busy to make my own raw almond milk. And I’ve never had a problem with it whatsoever. So from my personal experience, I don’t see carrageenan as a worrisome ingredient, but I do understand that some people experience it differently, and it may be troublesome for people whose digestive systems are more sensitive than my own.
For the record, I definitely don’t consider carrageenan to be anywhere near as worrisome as, say, aspartame, GMOs or MSG.
#8) Acrylamides
Acrylamides are cancer-causing chemicals produced during the cooking of carbohydrates. Fried snack chips, for example, contain acrylamides. They don’t have to be listed on labels because they are technically not “ingredients.” They are chemicals produced during cooking or frying. Consuming acrylamides increases kidney cancer risk by 59 percent.
The FDA has published an extensive reference guide on acrylamide levels in foods, revealing that french fries have the highest levels of all. But they are also present in prune juice and even breakfast cereals.
A bag of organic snack chips can have just as many acrylamides as a bag of conventional snack chips. This is why fried snack chips should be eaten only sparingly, or never at all. I’m guilty of eating some of these chips myself from time to time, but I limit the quantity and make sure I’m taking chlorella or other superfoods at the same time to counteract the acrylamides.
Interestingly, it turns out that vitamin C blocks acrylamides from causing damage to your body. But if your vitamin C is from a GMO source (see above), you may want to rethink that strategy. Natural citrus juice, rose hips or even camu camu berry powder is a much better choice of natural, full-spectrum vitamin C.
If you eat fried foods of any kind, make sure you ingest a lot of vitamin C, astaxanthin and chlorella before and after your meal or snack.
#9) Hidden MSG / yeast extract
Hidden MSG is a huge issue across the natural products industry. Pick up almost any veggie burger, and you’ll find it’s made with yeast extract, a hidden form of MSG (monosodium glutamate).
Yeast extract is unbelievably prevalent in the food industry because it looks nicer on the label than “MSG.” Most people are trained to avoid MSG, but yeast extract slips by, so food manufacturers put it into canned soups, dip mixes, snack chips, microwave dinners and especially in vegetarian products, many of which are so loaded with chemicals and additives that I won’t dare touch them. Just because a food says “vegetarian” doesn’t mean it’s healthy.
Hidden MSG is also labeled as “autolyzed yeast extract” or “torula yeast” or even “hydrolyzed vegetable protein.”
#10) Fluoride in green tea
Green tea is famous for being contaminated with high levels of fluoride. This is frustrating, because green tea is phenomenally good for your health. It has been proven to lower “bad” cholesterol levels, and it may even help prevent cancer and neurological disorders. It’s probably one of the healthiest beverages you can ever drink.
The tea plant that produces green tea just happens to uptake a huge amount of fluoride from the soils. So when there’s fluoride present in those soils, the green tea will have a surprisingly high concentration, sometimes as much as 25ppm.
An interesting article on this issue is found at Toxipedia.org:
http://toxipedia.org/display/toxipedia/Fluoride+Content+in+Tea
While this fluoride in green tea might not be a health hazard all by itself, the governments of the world seem insistent on pumping even more synthetic, chemical fluoride into the water supplies, thereby creating a high risk for fluorosis. Adding green tea to the fluoride consumption you might experience from tap water is a recipe for disaster: brittle bones, discoloration of teeth and even cancer.

The final “dirty little secret” of the natural products industry

Finally, there’s one more secret you need to know about. Most importers, packers, vendors and retailers of natural supplements foolishly trust the lab results provided by the manufacturers and exporters!
So a typical U.S. company that sells, for example, pomegranate powder on the internet may never conduct their own tests for lead, mercury, cadmium, arsenic and aluminum. They will simply take the lab tests provided by the manufacturer and consider those to be absolute fact!
This is extraordinarily foolish. Growers and exporters routinely lie about their lab tests in order to pull the wool over the eyes of importers, formulators and retailers. The lab tests are easily faked or simply bought off in their home country. Contaminated products can be easily sold and exported because the FDA doesn’t routinely check imported raw materials for heavy metals contamination.
Courtesy: Mike Adams at naturalnews.com