Sunday, July 3, 2016

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں میرے 10 تکلیف دہ دن



شام کے تقریباً 4 بجے ایک مریضہ، جسے مرگی کا دورہ پڑا تھا، کو لاہور کی ایک سرکاری ہسپتال کے زنانہ ایمرجنسی  وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ یکے بعد دیگرے ہسپتال کے ڈاکٹرز اس کا معائنہ کرتے، انہیں لاتعداد ڈرپس لگائی جاتیں، مگر ان میں سے کوئی چیز ان کے شدید دورے کو قابو میں نہیں لا پا رہی تھی۔
انہیں ہر ایک منٹ کے وقفے کے بعد دورہ پڑتا۔ وہ مریضہ میری کزن تھیں۔
میری کزن کو نیورولاجسٹ کی ضرورت تھی۔ وارڈ کے ڈاکٹرز جتنا کر سکتے تھے انہوں نے وہ سب کیا، مگر وہاں کوئی بھی اسپیشلسٹ دستیاب نہیں تھا جو ان کی ابتر حالت کے پیش نظر مناسب ادویات تجویز کرسکتا۔
ہماری ایمرجنسی 24 سے 27 دسمبر کی طویل ہفتہ وار چھٹیوں میں واقع ہوئی تھی۔ جب ہم نے ان سے کہا کہ ہم مریضہ کو ہسپتال کے نیورو اسپیشلسٹ کو دیکھانا چاہتے ہیں، تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ چھٹیوں کے بعد ہی دستیاب ہوں گے، بھلے ہی اس دوران کوئی ایمرجنسی کیسز ہی کیوں نہ ہوں۔
ہسپتال میں موجود ایک جونیئر ڈاکٹر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ''حتیٰ کہ ہمیں پروفیسر کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں۔''
اس طرح مناسب علاج کے لیے میری کزن کا سب سے طویل اور انتہائی تکلیف دہ انتظار شروع ہوا، اور ہمارا گھرانہ انہیں شدید کرب میں لاچاری سے دیکھتا رہا۔
جب ہم انتظار کر رہے تھے، تو اسی اثنا میں میری کزن کے پیروں کو کاسٹ میں ڈالا گیا تھا کیونکہ مرگی کے دوروں کے دوران ان کے اعصاب تناؤ کا شکار ہو گئے تھے — اس حالت کو فُٹ ڈراپ کہتے ہیں۔
اس دوران میں نے اپنے ہر ڈاکٹر دوست سے رابطہ کیا کہ شاید کوئی مجھے اس اسپیشلسٹ تک پہنچنے میں مدد کر سکے۔ میں سوچنے لگی کہ اگر ہم جیسے اچھے خاصے متوسط طبقے کے گھرانے کا اس ہسپتال میں ایسا حشر ہے تو پھر ان بے چارے ملک کے پسے ہوئے طبقے کا کیا حال ہوتا ہوگا جو یہاں اپنے علاج کی غرض سے یہاں آتے ہیں؟
انصاف سے کہوں تو وہاں ادویات بے حد کم قیمت پر دستیاب تھیں اور ہر کچھ گھنٹوں بعد جنرل فزیشن وارڈز کا دورہ بھی کرتا تھا۔
مگر جس چیز نے مجھے ذہنی اضطراب کا شکار بنایا، وہ یہ کہ نہ صرف ہیڈ نیورولاجسٹ چھٹی پر تھے، بلکہ ہنگامی حالت کے لیے ان کی جگہ پر بھی اور کوئی نیورولاجسٹ موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ان نیورولاجسٹ کی غیر حاضری میں نیورولاجی ڈپارٹمنٹ ہی پورے چار دنوں تک بند رہا۔
کسی کو بھی نیورولاجی کے مریض کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ کوئی بھی نیورولاجی کے مریض کے آنے کی توقع ہی نہیں کر رہا تھا۔
کام کا ہفتہ شروع ہونے تک ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹرز میری کزن کی حالت کافی حد تک قابو میں لانے میں کامیاب رہے تھے۔ جب چھٹیاں ختم ہوئیں، تب بھی ان اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو میری کزن کے پاس آنے کی فرصت نہ ملی؛ خود آنے کے بجائے انہوں نے اپنا جونیئر ڈاکٹر بھیج دیا۔
بہت دیر کے بعد بالآخر جب متعلقہ ڈاکٹرز میری کزن کے پاس پہنچے تو انہوں نے ایم آر آئی کروانے کی تجویز دی۔ ہسپتال میں بہت سی ضروری مشینوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمیں مجبوراً نجی کلینک کا رخ کرنا پڑا، وہ بھی اپنے آپ میں ایک عذاب تھا کیونکہ وہاں نہ مناسب اسٹریچر تھے اور نہ ہی ایمبولینسیں۔
جب تک میری کزن ہسپتال میں داخل رہیں، میں ہر روز آنے والی مریضوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتی تھی کہ انتہائی کم آلات سے آراستہ اس ہسپتال میں ان کا علاج کس طرح ہوتا ہوگا۔ یونٹ کے کئی وارڈز میں بستروں کی کمی وجہ سے اکثر اوقات نرسیں دو مریضوں کو ایک ہی بستر پر لیٹا دیتی تھیں۔
بستروں کے ساتھ ڈرپس یا خون کی بوتلوں کو لٹکانے کے لیے کوئی اسٹینڈ بھی نہ تھا؛ ہسپتال کا اسٹاف دیوار پر لگی کیلوں کے سہارے انہیں ٹانگ دیا کرتا۔
دیواریں بہت میلی تھیں، صفائی کا فقدان تھا اور بلیاں آزادی سے گھوم پھر رہی تھیں اور مریضوں کے کھانوں میں منہ مار رہیں تھیں۔
وہاں پر کوئی تخلیہ بھی نہ تھا، اگر کسی مریض کو برتن میں رفع حاجت کرنی ہوتی تو تیزی سے پردوں کو گھسیٹا جاتا اور دیگر مریضاؤں کے تمام مرد رشتہ داروں کو باہر جانا پڑتا۔
مردوں کے وارڈ کی حالت تو اور بھی بدتر تھی؛ وارڈ مریضوں سے بھرا ہوا تھا یہاں تک کہ مریض اسٹریچرز پر راہداری میں بھی پڑے ہوئے تھے۔
مگر اس سب کے باوجود بہت سارے ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کافی مددگار ثابت ہوئے مگر ان کے اوپر اضافی کام کا بوجھ بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کی مرہونِ منت ہی میری کزن کو دورے آنا بند ہوئے تھے اور ہم انہیں گھر لے جانے کے قابل بن سکے۔ ہم ہسپتال میں پورے دس دن رہے مگر نیورو اسپیشلسٹ کو دیکھ نہیں پائے۔
جب کبھی بھی اس واقعے کو یاد کرتی ہوں تو مجھے وہ درد یاد آتا ہے جو اپنے پیارے کو بیماری میں تڑپتے ہوئے دیکھنے پر محسوس ہوتا ہے۔ مجھے تکلیف میں مبتلا تمام مریض بھی یاد آتے ہیں جو اس ہسپتال میں اس امید سے اندر داخل ہوتے تھے کہ یہاں انہیں تھوڑا بہت قرار مل سکے گا مگر انہیں وہاں کچھ ایسا حاصل نہیں ہو پاتا۔
تو کیا ہمیں اپنی نگہداشت خود کرنے پر چھوڑ دیا گیا ہے؟
بظاہر ایسا یقینی لگتا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ ماضی قریب میں کسی سیاستدان نے کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا ہو۔ بلکہ ملک میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے صوبے کے پاس تو وزیر صحت تک نہیں۔
یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ذاتی کلینکس کے بجائے سرکاری ہسپتالوں میں موجود مریضوں کا باقاعدگی سے علاج کریں؟
اور سرکاری ہسپتالوں میں جہاں سخت قوانین کی کمی ہے وہاں قوانین پر عملدرآمد یقینی ہو جس سے لوگوں کو بروقت صحت کی سہولیات میسر ہوں؟
اور جب ملک کے وزیر اعظم کے پاس اپنے طبی مسائل کی تشخیص کے لیے لندن جانے کے شاہانہ وسائل رکھتے ہیں، تو کیا پاکستان کے لوگ اپنے ملک میں ہی مناسب علاج کے مستحق نہیں ہیں؟
وزیر اعظم صحت پروگرام جیسے اقدامات مسئلے کو حل کرنے کے عارضی انتظامات ہیں جو ہمارے انتہائی بیمار طبی نظام کے لیے ناکافی ہیں۔
پاکستان میں کچھ لوگ تو محض ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی غیر حاضری اور ڈائیلائیسز میشین کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی موت کا شکار بن جائیں گے۔
ایسے میں جب ہم صحت کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف 0.9 فیصد خرچ کرتے ہیں، تو دفاع پر 20 فیصد اور وزراء کے مفت بیرونِ ملک دوروں کی توجیہہ کس طرح پیش کر سکتے ہیں؟

Courtesy: Dunya News

No comments: