ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں دل کے دورے کے بعد ایک تہائی مریضوں کی غلط تشخیص کی جاتی ہے، اور اس سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
یونیورسٹی آف لیڈز کے تحقیق کاروں نے برطانوی ادارۂ صحت این ایچ ایس سے حاصل شدہ دل کے دورے کے چھ لاکھ مریضوں کے نو برس پر محیط اعداد و شمار کا جائزہ لیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کے مقابلے پر اس بات کے امکانات 50 فیصد زیادہ ہوتے ہیں کہ عورتوں کی ابتدائی تشخیص حتمی تشخیص سے مختلف ہو۔
این ایچ ایس انگلینڈ نے کہا ہے کہ وہ دل کے دورے کی تشخیص میں بہتری لانے کے اقدامات کر رہا ہے، جب کہ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ دل کے دورے کی علامات سے باخبر رہیں۔
یورپیئن ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں برطانیہ میں اپریل 2004 تا مارچ 2013 تک انگلستان اور ویلز کے 243 ہسپتالوں میں دل کے دورے کے مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک لاکھ 98 ہزار کے قریب مریضوں کی ابتدائی تشخیص غلط تھی۔
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق برطانیہ میں ہر سال 28 ہزار خواتین دل کا دورہ پڑنے سے موت کے منھ میں چلی جاتی ہیں۔
بی ایچ ایف، جن نے اس تحقیق کے لیے مالی مدد فراہم کی ہے، کا کہنا ہے کہ دل کے دوروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، سٹیمی اور نان سٹیمی۔
نان سٹیمی زیادہ عام قسم ہے جس میں ایک یا ایک سے زائد شریانیں جزوی طور پر بند ہوتی ہیں۔
سٹیمی اس وقت ہوتا ہے جب دل سے آکسیجن ملا خون جسم بھر میں پہنچانے والی مرکزی شریان مکمل طور پر بند ہو جائے۔
دونوں اقسام کے دوروں سے دل کے پٹھوں کو سنگین نقصان پہنچتا ہے۔
جن عورتوں کے دل کے دورے کی حتمی تشخیص سٹیمی تھی، ان میں غلط تشخیص کا امکان مردوں کے مقابلے پر 59 فیصد زیادہ نکلا۔ جب کہ نان سٹیمی مریضاؤں میں یہ شرح 41 فیصد تھی۔
بی ایچ ایف کے ایسوسی ایٹ میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک نیپٹن نے کہا کہ تشخیص میں اس قدر فرق ’تشویش ناک حد تک زیادہ ہے،‘ تاہم انھوں نے کہا کہ خواتین میں دل کے دورے کی بہتر تشخیص کے لیے بہتر ٹیسٹ وضع کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: ’اس نئی تحقیق سے اس مسئلے کی نوعیت کا پتہ چلتا ہے اور اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ ایسے ٹیسٹ وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے جو دل کے دورے میں، خاص طور پر خواتین کے لیے، فوری اور بہتر تشخیص میں مدد دے سکیں۔‘
بشکریہ: بی بی سی اُردو
No comments:
Post a Comment