کاربونیٹ آف بیریم
دماغی جذباتی علامات:
* ناپختہ۔ نشوونما میں رکاوٹ
* خود اعتمادی کی کمی۔ دوسروں پر شک کرے خیال کرے کہ لوگ اس پر ہنس رہے ہیں
* دماغ کمزور
* یادداشت کمزور۔ بھول جائے۔ غیر متوجہ
* یہ دوا زیادہ تر جسمانی اور دماغی طور پر کمزور بچوں اور بوڑھوں کیلئے فائدہ مند ہے
* بچے شرمیلے ہوتے ہیں اپنی ماں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں
* نشوونما میں تاخیر۔ مریض عام طور پر اپنا منہ کھلا رکھتے ہیں
جسمانی علامات:
* بچوں اور بڑوں کا گنجا پن
* گلسوؤں کا مزمن طور پر بڑھ جانا
عمومیات:
* پھلوں سے نفرت
* جسمانی کمزوری
* غدہ قدامیہ اور خصیوں کا بڑھ جانا
برائٹا کارب افراد میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر مریض کا مزاج برائٹا کارب کا ہے تو وہ اپنے اندر عدم تحفظ کی ایک عام قسم رکھتا ہے۔ لیکن ایک خاص نقطہ کے بعد یا کچھ دباؤ کی وجہ سے اس عدم تحفظ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور تب مریض کہتا ہے کہ مجھے اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہے۔ میں کام کرنے سے قاصر ہوں ۔ میرے اندر وہ اعتماد نہیں ہے جو کام کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ پس وہ کام پر جانا چھوڑ دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر شاید امراض کی تشخیص کرنا یا لوگوں کا علاج کرنا چھوڑ دے۔ پریشان کن حالات میں ایسے افراد ہر شے سے خوف کھاتے ہیں۔ مثلاً اکیلا رہنے سے خوف، اندھیرے کا خوف، بھوتوں کا خوف، ہوائی جہاز میں سفر کرنے سے خوف، گھر سے باہر جانے پر خوف، گھر میں اکیلا رہنے کا خوف، مستقبل کا خوف، پاگل ہوجانے کا خوف وغیرہ۔ یہ خوف مریض کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں لیکن ان کے نرم کردار کی وجہ سے دوسرے ان کو آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں۔ ان خوفوں کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ کسی حد تک عدم تحفظ اور ناپختگی کے ضمنی اثرات ہوتے ہیں۔
اگر آپ مریض کے عام رویے کا ادراک نہیں کرتے تو آپ کلکیریا کارب کی جانب مائل ہو جائیں گے تو عدم تحفظ اور ناپختگی جو خوف و اضطراب کی تہہ میں ہے آپ اس تک رسائی کیسے حاصل کریں گے مثلاً پل پار کرنے کا خوف، گلی میں شور سے خوف، اجنبیوں کا خوف، چلتے وقت خوف۔
لیکن کلکیریا کارب کے خوف تو بہت مضبوط اور خوفناک ہوتے ہیں جبکہ برائٹا کارب کے خوف کم گہرے یا کم اہم ہوتے ہیں۔
دنیاوی مشکلات اور مسائل کے ساتھ الجھا ہوا معاشرہ برائٹا کارب کے مریض کو موت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس دوا کا مریض باہر نکل کر لڑ نہیں سکتا۔ وہ بڑوں کے درمیان اپنے آپ کو بچوں کی طرح محسوس کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ انہیں اپنی حفاظت اور دفاع کیسے کرنا ہے۔ ایسی کشمکش میں ایک اعصابی پریشانی نشوونما پا سکتی ہے۔ خاص طور پر جب مریض کے گھر والے یا سماج اسے باہر جانے اور عمل کرنے پر مجبور کرے۔ اس حالت میں مریض کا معدہ اپنے اندر غذا کو قائم نہیں رکھ سکتا یا مریض کو ٹھوس غذا نگلنے میں دقت ہوجاتی ہے۔ آپ کو ناقابلِ تشریح مہیب خوف بھی دکھائی دے گا۔ مثلاً مریض مسلسل روتے ہیں اور گھر میں رہنے کی اور خود کو محفوظ رکھنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اگر مریض گھر چھوڑ کر باہر کھلے میں چلے جائیں تو فوراً پریشان ہوجاتے ہیں۔
یہ پریشانی بستر میں لیٹے لیٹے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مریض پریشان ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اوپر لیا ہوا کپڑا اتار دیتا ہے۔ یہ پریشانی کاروبار، گھریلو معاملات، دوستوں اور رشتوں داروں کے گرد گھوم سکتی ہے۔ عموماً یہ پریشانی اچانک ظاہر ہوتی ہے۔ یہ زندگی کی جانب ایک منفی رویہ ہے۔ فطری ارتقا سے انکار انسانوں کیلئے عام بات ہے اور اس کی کوئی سنجیدہ وجہ بھی نہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ایسے افراد کی زندگی میں عام طور پر کوئی دباؤ ان کی اپنی پیتھالوجی کی وجہ سے نہیں بنتا۔ ہر شے یکسانی سے رواں دواں نظر آتی ہے۔ مریضہ خود اس کی توثیق کرتی ہے۔ اس کے باوجود مہیب پریشانی نمودار ہوگی۔ اگر آپ مریض کی مکمل تفتیش کریں تو آپ کو مریض کی زندگی میں غم کا ایک سانحہ بھی نمایاں نہ ملے گا جس سے یہ پریشانی پیدا ہوئی۔ بلکہ صرف ناکافی ہونے کا احساس ان کے وجود پر چھا جاتا ہے۔ پھر اچانک معمولی سا دباؤ دکھ دینے والی پیتھالوجی میں پھٹ پڑتا ہے۔
ہماری ادویات کی فطرت ایسی ہے کہ مختلف اقسام کے دباؤ کے تحت مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایکونائٹ کا مریض اچانک خوفزدہ ہوجائے تو اسے زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ موت آنے والی ہے۔ جبکہ نیٹرم میور اس قسم کے صدمے پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کرتا۔ لیکن دوسری جانب محبت میں ناکامی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے مریض اسے مذاق میں ٹال دیں گے۔
اس قسم کے دباؤ میں برائٹا کارب اور ایکو نائٹ ہرگز اثر نہیں کریں گی۔ کاروبار کی تباہی یا دباؤ میں اورم، سورینم اور برائی اونیا کے مریض پر گہرا اثر رکھتی ہیں جبکہ نیٹرم میور اور اگنیشیا بغیر اثر کئے ویسی ہی رہیں گی۔
دباؤ کی حالت میں آرسنک کا مریض اپنی صحت کی بابت پریشان ہوگا۔ کینسر ہو جانے کا خوف اور موت کا بڑا خوف۔
اسی طرح ایسے ہی دباؤ کی حالت میں ہائیوسائمس کا مریض اپنے جذبات کو ساقط کردے گا اور جذباتی طور پر مردہ محسوس ہوگا۔ یہ چند امثال ہیں تاکہ میرا نکتہ نظر واضح ہو سکے۔
جب آپ دوا دیں گے تو اضافی پیتھالوجی غائب ہوجائے گی اور مریض کا فطری شرمیلاپن اور بزدلی واپس آ جائے گی۔
برائٹا کارب کے مریض میں خود اعتمادی کی کمی ہوگی اور وہ چار سو افراد کے سامنے آکر بات نہیں کر سکتا۔ اسے بھول جائیں کیونکہ ابھی وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ اس لمحہ بیمار ہوجاتا ہے جب اس کا امتیازی وصف، شرمیلا پن اور بزدلی خود اعتمادی کی کمی میں معتد بہ اضافہ ہو جائے اور اس کے کام میں سدِ راہ ہو جائے اور اس کی تخلیقی قوتوں کا خاتمہ ہو جائے تو وہ بیمار ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
دماغی جذباتی علامات:
* ناپختہ۔ نشوونما میں رکاوٹ
* خود اعتمادی کی کمی۔ دوسروں پر شک کرے خیال کرے کہ لوگ اس پر ہنس رہے ہیں
* دماغ کمزور
* یادداشت کمزور۔ بھول جائے۔ غیر متوجہ
* یہ دوا زیادہ تر جسمانی اور دماغی طور پر کمزور بچوں اور بوڑھوں کیلئے فائدہ مند ہے
* بچے شرمیلے ہوتے ہیں اپنی ماں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں
* نشوونما میں تاخیر۔ مریض عام طور پر اپنا منہ کھلا رکھتے ہیں
جسمانی علامات:
* بچوں اور بڑوں کا گنجا پن
* گلسوؤں کا مزمن طور پر بڑھ جانا
عمومیات:
* پھلوں سے نفرت
* جسمانی کمزوری
* غدہ قدامیہ اور خصیوں کا بڑھ جانا
برائٹا کارب افراد میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر مریض کا مزاج برائٹا کارب کا ہے تو وہ اپنے اندر عدم تحفظ کی ایک عام قسم رکھتا ہے۔ لیکن ایک خاص نقطہ کے بعد یا کچھ دباؤ کی وجہ سے اس عدم تحفظ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور تب مریض کہتا ہے کہ مجھے اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہے۔ میں کام کرنے سے قاصر ہوں ۔ میرے اندر وہ اعتماد نہیں ہے جو کام کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ پس وہ کام پر جانا چھوڑ دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر شاید امراض کی تشخیص کرنا یا لوگوں کا علاج کرنا چھوڑ دے۔ پریشان کن حالات میں ایسے افراد ہر شے سے خوف کھاتے ہیں۔ مثلاً اکیلا رہنے سے خوف، اندھیرے کا خوف، بھوتوں کا خوف، ہوائی جہاز میں سفر کرنے سے خوف، گھر سے باہر جانے پر خوف، گھر میں اکیلا رہنے کا خوف، مستقبل کا خوف، پاگل ہوجانے کا خوف وغیرہ۔ یہ خوف مریض کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں لیکن ان کے نرم کردار کی وجہ سے دوسرے ان کو آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں۔ ان خوفوں کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ کسی حد تک عدم تحفظ اور ناپختگی کے ضمنی اثرات ہوتے ہیں۔
اگر آپ مریض کے عام رویے کا ادراک نہیں کرتے تو آپ کلکیریا کارب کی جانب مائل ہو جائیں گے تو عدم تحفظ اور ناپختگی جو خوف و اضطراب کی تہہ میں ہے آپ اس تک رسائی کیسے حاصل کریں گے مثلاً پل پار کرنے کا خوف، گلی میں شور سے خوف، اجنبیوں کا خوف، چلتے وقت خوف۔
لیکن کلکیریا کارب کے خوف تو بہت مضبوط اور خوفناک ہوتے ہیں جبکہ برائٹا کارب کے خوف کم گہرے یا کم اہم ہوتے ہیں۔
دنیاوی مشکلات اور مسائل کے ساتھ الجھا ہوا معاشرہ برائٹا کارب کے مریض کو موت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس دوا کا مریض باہر نکل کر لڑ نہیں سکتا۔ وہ بڑوں کے درمیان اپنے آپ کو بچوں کی طرح محسوس کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ انہیں اپنی حفاظت اور دفاع کیسے کرنا ہے۔ ایسی کشمکش میں ایک اعصابی پریشانی نشوونما پا سکتی ہے۔ خاص طور پر جب مریض کے گھر والے یا سماج اسے باہر جانے اور عمل کرنے پر مجبور کرے۔ اس حالت میں مریض کا معدہ اپنے اندر غذا کو قائم نہیں رکھ سکتا یا مریض کو ٹھوس غذا نگلنے میں دقت ہوجاتی ہے۔ آپ کو ناقابلِ تشریح مہیب خوف بھی دکھائی دے گا۔ مثلاً مریض مسلسل روتے ہیں اور گھر میں رہنے کی اور خود کو محفوظ رکھنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اگر مریض گھر چھوڑ کر باہر کھلے میں چلے جائیں تو فوراً پریشان ہوجاتے ہیں۔
یہ پریشانی بستر میں لیٹے لیٹے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مریض پریشان ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اوپر لیا ہوا کپڑا اتار دیتا ہے۔ یہ پریشانی کاروبار، گھریلو معاملات، دوستوں اور رشتوں داروں کے گرد گھوم سکتی ہے۔ عموماً یہ پریشانی اچانک ظاہر ہوتی ہے۔ یہ زندگی کی جانب ایک منفی رویہ ہے۔ فطری ارتقا سے انکار انسانوں کیلئے عام بات ہے اور اس کی کوئی سنجیدہ وجہ بھی نہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ایسے افراد کی زندگی میں عام طور پر کوئی دباؤ ان کی اپنی پیتھالوجی کی وجہ سے نہیں بنتا۔ ہر شے یکسانی سے رواں دواں نظر آتی ہے۔ مریضہ خود اس کی توثیق کرتی ہے۔ اس کے باوجود مہیب پریشانی نمودار ہوگی۔ اگر آپ مریض کی مکمل تفتیش کریں تو آپ کو مریض کی زندگی میں غم کا ایک سانحہ بھی نمایاں نہ ملے گا جس سے یہ پریشانی پیدا ہوئی۔ بلکہ صرف ناکافی ہونے کا احساس ان کے وجود پر چھا جاتا ہے۔ پھر اچانک معمولی سا دباؤ دکھ دینے والی پیتھالوجی میں پھٹ پڑتا ہے۔
ہماری ادویات کی فطرت ایسی ہے کہ مختلف اقسام کے دباؤ کے تحت مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایکونائٹ کا مریض اچانک خوفزدہ ہوجائے تو اسے زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ موت آنے والی ہے۔ جبکہ نیٹرم میور اس قسم کے صدمے پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کرتا۔ لیکن دوسری جانب محبت میں ناکامی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے مریض اسے مذاق میں ٹال دیں گے۔
اس قسم کے دباؤ میں برائٹا کارب اور ایکو نائٹ ہرگز اثر نہیں کریں گی۔ کاروبار کی تباہی یا دباؤ میں اورم، سورینم اور برائی اونیا کے مریض پر گہرا اثر رکھتی ہیں جبکہ نیٹرم میور اور اگنیشیا بغیر اثر کئے ویسی ہی رہیں گی۔
دباؤ کی حالت میں آرسنک کا مریض اپنی صحت کی بابت پریشان ہوگا۔ کینسر ہو جانے کا خوف اور موت کا بڑا خوف۔
اسی طرح ایسے ہی دباؤ کی حالت میں ہائیوسائمس کا مریض اپنے جذبات کو ساقط کردے گا اور جذباتی طور پر مردہ محسوس ہوگا۔ یہ چند امثال ہیں تاکہ میرا نکتہ نظر واضح ہو سکے۔
جب آپ دوا دیں گے تو اضافی پیتھالوجی غائب ہوجائے گی اور مریض کا فطری شرمیلاپن اور بزدلی واپس آ جائے گی۔
برائٹا کارب کے مریض میں خود اعتمادی کی کمی ہوگی اور وہ چار سو افراد کے سامنے آکر بات نہیں کر سکتا۔ اسے بھول جائیں کیونکہ ابھی وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ اس لمحہ بیمار ہوجاتا ہے جب اس کا امتیازی وصف، شرمیلا پن اور بزدلی خود اعتمادی کی کمی میں معتد بہ اضافہ ہو جائے اور اس کے کام میں سدِ راہ ہو جائے اور اس کی تخلیقی قوتوں کا خاتمہ ہو جائے تو وہ بیمار ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
Related Posts
برائٹا کارب – جارج وتھالکس کی کتاب “حسد اور تشویش” کا اردو ترجمہ (ڈاکٹر بنارس خان اعوان)۔
No comments:
Post a Comment