پیشِ خدمت ہے پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ درانی صاحبہ کا مضمون — دولت کی پیدا کردہ بیماریاں۔ اُن کا یہ مضمون اگرچہ ہومیوپیتھی سے براہِ راست متعلق نہیں ہے تاہم اُن روَیوں کی نشان دہی ضرور کرتا ہے جو کسی انسان کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی بیماریوں میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پاکستان کی صفِ اول کی گائناکالوجسٹ ہیں۔ اُن سے وقت لینے کے کے لئے مریضوں کو مہینہ بھر انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ روزانہ کم و بیش سو مریض تو دیکھتی ہی رہی ہیں۔ اپنی پریکٹس کے دوران وہ غریبوں اور مستحق افراد کے خصوصی وقت نکالتی رہیں اور کئی بار تو دوائیاں بھی خود ہی فراہم کرنے کا انتظام کرتیں۔ انہوں نے ہر طبقہ زندگی کے انسانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور مَیں نے اُنہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے بہت مصروف زندگی گزاری — میں نے اُن جتنا مصروف انسان کبھی نہیں دیکھا۔ مَیں ابھی بمشکل بیس سال کا تھا کہ اُن سے تعارف ہوا اور پھر یہ تعلق اُن کی شفقت اور نوازشات کی وجہ سے ہمیشہ بڑھتا ہی رہا۔ ہر سال کچھ عرصہ کے لئے کبھی لندن، کبھی امریکہ یا دوبئی وغیرہ چلی جاتیں لیکن ہفتہ دس دن میں ایک بار فون پر رابطہ کرنے کا اہتمام فرما ہی لیتیں۔ میں جب برطانیہ میں مقیم تھا؛ تب بھی یہ معمول رہا کہ ہفتہ میں ایک بار گفتگو ہو جاتی۔ اُن دنوں ایسا بھی ہوا کہ وہ امریکہ جاتے ہوئے لندن رُکیں تو فون کیا۔ میں لندن سے باہر تھا سو تفصیلی ملاقات دوسرے دن ہوئی۔ اُنہیں میرے پاکستان چھوڑنے کے فیصلے پر مایوسی تھی اور اِس کی وجہ اُن کے خیال میں یہ تھی کہ برطانیہ میرے رہنے کے لئے مناسب جگہ نہیں تھی اور پاکستان میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ سالہا سال تک لندن اور امریکہ کے بہترین ہسپتالوں میں کام کر چکی تھیں سو اُنہیں اِن معاشروں کی خوبیوں اور خامیوں سے کماحقہٗ آگاہی تھی۔
ڈاکٹر زاہدہ درانی صاحبہ کے شاگرد بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ انہوں نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں سالہاسال پڑھایا اور سر گنگارام ہسپتال میں اپنے شعبے کی ہیڈ رہیں۔ فاطمہ میموریل ہسپتال و کالج لاہور میں اب بھی پروفیسر ہیں۔
ہومیوپیتھک طریقہ علاج اور اِس میں میری دلچسپی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ خود بھی حسبِ ضرورت ہومیوپیتھک ادویات استعمال کرتی ہیں۔ وہ اُن چند گائناکالوجسٹس میں ہیں جو ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ مریض کو سرجری اور آپریشن سے بچایا جائے۔ جن لوگوں سے اُن کو واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ کس قدر انسان دوست، شائستہ اور مخلص شخصیت ہیں۔ جس شگفتگی اور شفقت سے وہ مریض کا کیس لیتی ہیں ویسا کسی ایلوپیتھک ڈاکٹر کو لیتے نہیں دیکھا۔ ہمارے ہاں بڑے ڈاکٹرز کے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ اُنہیں مریضوں کے احساسات کی پروا نہیں ہوتی؛ لیکن ڈاکٹر زاہدہ درانی اِس معاملہ میں بہت ہی ذمہ دار اور حساس واقع ہوئی ہیں۔ اُن میں جلدی کبھی دیکھی ہے تو وہ صرف ایمرجینسی کال پر جانے کی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ ایک ایمرجینسی سے فارغ ہو کر ابھی واپس پہنچی ہیں تو دوسری ایمرجینسی کال آ گئی اور وہ دوبارہ روانہ ہو گئیں۔ اِس معاملہ میں مجھے اپنے مشکلات کے دن بھی یاد آتے ہیں۔ میں ایک حادثہ کا شکار ہو کر کئی ماہ کے لئے معذور ہو گیا۔ اُن کو جونہی اطلاع ملی؛ سب کام چھوڑ کر تشریف لائیں۔ خود اپنی نگرانی میں ایک ہسپتال سے دوسرے شفٹ کروایا۔ اطمینان نہیں ہوا تو پھر تیسرے۔ کم و بیش روزانہ ملنے تشریف لاتیں۔ ایسے انتظامات کئے کہ مجھے ہر وقت کمپنی میسر رہے۔ ہفتہ میں ایک دو بار اپنی گاڑی بھیجتیں اور اُن کا ڈرائیور مجھے لاہور گھماتا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ کوئی ضروری بات ڈسکس کرنے مَیں اُن کے کلینک گیا اور اُن کو فارغ ہوتے ہوتے رات کے بارہ بج گئے۔ اُن کا سٹاف تھکا ہارا ہو جاتا تھا لیکن وہ اطمینان سے اپنے کام میں مصروف ہوتیں۔ وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتی ہیں کیوںکہ اُنہوں نے بہت ساری ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔ کروڑوں روپے تو مَیں نے خود اپنے ہاتھوں سے، اُن کی طرف سے اب تک کہیں دئے یا پہنچائے ہیں۔ لاہور شہر کے سنٹر فاضلیہ کالونی میں کئی کنال پر محیط اپنا کلینک انہوں نے مستحق طالبعلوں کے سکول “دی ٹرسٹ سکول” کو عطیہ کر دیا۔
وضع دار ایسی کہ اتنی مصروفیت کے باوجود اپنے ملنے والوں کے دکھ سکھ میں بھرپور شرکت کرتی ہیں۔ مہمان داری کے تقاضے پورے کرنا کوئی اُن سے سیکھے۔ ہر ممکن اہتمام کرتی ہیں اور دورانِ ملاقات و گفتگو کبھی ایسا تاثر نہیں دیتیں کہ جلدی میں ہیں یا جان چھڑانا چاہ رہی ہیں۔ آج کے دَور میں یہ بات ناقابلِ یقین سی لگتی ہے مگر یہ حقیقت ہے۔
میڈیکل کے علاوہ اُنہیں قرآنِ کریم، عربی زبان اور پاکستان سے گہری دلچسپی ہے۔ جب بھی کوئی اہم نکتہ اُن کے دل و دماغ میں آتا ہے وہ میرے ساتھ ضرور شئیر کرتی ہیں۔ کئی مرتبہ میرے ذمہ لگایا کہ فلاں موضوع پر قرآن، احادیث اور مختلف فقہ کی تشریح ڈھونڈیں۔ اِسلام کے حوالے سے قائدِ اعظم کے ارشادات و فرمودات کو مرتب کریں۔ علامہ اقبال کے کلام میں قرآنِ کریم پر کہاں کہاں اور کیا کیا آیا ہے۔ اِس طرح اُن کا کوئی فائدہ ہوا یا نہیں لیکن مجھے تحقیق و جستجو کا عادت ڈالنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اُن کی اِس تربیت نے مجھے ہومیوپیتھک پریکٹس میں بہت مدد دی۔ میں اپنے مشکل کیس ڈسکس کرنے کے لئے ہر طرح کا لٹریچر پڑھتا ہوں اور مختلف ڈاکٹر صاحبان سے مشورہ کرتا ہوں۔
اگرچہ تمام اہم سیاست دانوں کے اُن سے روابط رہے تاہم عمران خان اور اُن کے فیملی ممبرز ڈاکٹر صاحبہ کے ہاں آتے جاتے دیکھے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی پراجیکٹس کے قیام و انصرام میں ڈاکٹر زاہدہ درانی کا کردار بہت اہم ہے۔
مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے اندر اگر کوئی خوبی، خلوص اور انسان دوستی کی رمق ہے تو وہ اللہ کریم اور والدین کے بعد پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ درانی کی عنایت ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر، اِس سلسلہ میں، میرے جذبات کی کافی حد تک عکاسی کرتا ہے۔
اگر سیاہ دِلم، داغِ لالہ زارِ تُو اَم
وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تُو اَم
اگر سیاہ دِلم، داغِ لالہ زارِ تُو اَم
وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تُو اَم
اس تمہید کا ایک مقصد تو اپنی محسنہ کو یاد کرنا تھا۔ “باباجی” فرمایا کرتے تھے کہ جن قوموں میں محسنوں کو یاد نہیں کیا جاتا، اُن میں محسنین آنا بند ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں قوموں کے ساتھ ساتھ انسانوں پر بھی، یہ فارمولا، فِٹ بیٹھتا ہے۔
دوسرا مقصد یہ کہ جو ممبرز یہ مضمون پڑھیں تو اُن کو اندازہ ہو کہ یہ جس شخصیت کی سوچ ہے اُس نے ہر رنگ، نسل، مذہب اور سٹیٹس کے انسانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
Related Posts
Related Posts
No comments:
Post a Comment