پیٹ کے کیڑے (چمونے) ایک عام علامت اور بیماری ہے جو کہ خاص طور پر بچوں میں پائی جاتی ہے تاہم بعض اوقات بڑے بھی اِن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اِن کیڑوں کی کئی اقسام ہیں: چمونے، چھوٹے سفید کیڑے، چھوٹے سفید مگر کالے منہ والے کیڑے، تھوڑے سے لمبے کیڑے، زیادہ لمبے (ملہپ) کیڑے اور کدو کیڑا وغیرہ۔Thread Worn, Tap Worm, Round Worm ,Pin worm, Hook Worm ۔
عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ مٹی وغیرہ یا میٹھا کھانے سے پیٹ میں کیڑے ہو جاتے ہیں تاہم برطانیہ اور یورپ کے بعض ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اِس سے بالکل مختلف بلکہ متضاد رائے رکھتے ہیں۔ دورانِ تعلیم اِسی موضوع ۔۔ پیٹ کے کیڑے اور اُن کا ہومیوپیتھک علاج ۔۔ پر لندن میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں یورپ، امریکہ اور برطانیہ کے ہومیوپیتھک ماہرین اور سکالرز نے میٹھا کھانے اور پیٹ کے کیڑوں کے باہمی تعلق پر اپنی تحقیقات پیش کیں۔ اُن میں سے چند ماہرین کا رجحان اِس طرف تھا کہ پیٹ کے کیڑوں کی اکثریت میٹھا کھانے سے بڑھتی نہیں بلکہ مرتی ہے۔ مریض جب میٹھا کھاتے ہیں تو ایسے کیڑے اپنی جان بچانے کے لئے اِدھر اُدھر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیڑوں کی اِس نقل و حرکت سے مریض کی بے چینی اور خارش چونکہ بے حد شدید ہو جاتی ہے سو میٹھا کھانے کی وجہ سے ظاہری علامات کے اِس طرح اچانک بڑھنے کو کیڑوں میں اضافہ سے تعبیر کیا جانے لگا۔ یہ بات ضمناً اِس لئے عرض کردی کہ پاکستان کے ہومیوپیتھک محققین اِس پہلو پر بھی غور کریں۔
قطع نظر اِس کے کہ میٹھا کھانے سے کیڑوں میں اضافہ ہو سکتا ہے یا نہیں؛ یہ دونوں صورتوں میں، بہرحال، اصل سبب نہیں ہے۔ اصل سبب موروثی مزاج ہے اور وہ بھی خاص طور پر ٹی بی یا سرطان (کینسر)۔ اول تو مٹی کھانا یا زیادہ میٹھا کھانا بذاتِ خود غیر فطری علامات و عادات ہیں ۔ اِن کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ مٹی کھانے کا سبب اگر کیلشیم کی کمی کہا جائے تو یہ کمی کیوں؟ بچہ دودھ پیتا ہے اورکئی ایسی چیزیں کھاتا پیتا ہےجن میں کیلشیم موجود ہوتا ہے تو پھر کمی رہ جانے کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ دراصل کیلشیم جذب نہیں ہوتا اور جذب نہ ہونے کی وجہ پھر وہی موروثی مزاج ہے۔ علامات کے مطابق کسی اَور مرض کا علاج کرتے ہوئے ہومیوپیتھک ادویات سورینم یا بسیلینم یا ٹیوبرکولینم دینے سے بہت سے کیڑے پاخانہ کے ساتھ خارج ہوتے مریضوں نے دیکھے ہیں -- اور ایسے مریضوں کا موروثی مزاج یا تو سرطانی تھا یا مدقوق۔
اہم بات سمجھنے کی یہ بھی ہے کہ عام دواؤں سے (چاہے وہ ہومیوپیتھک ہوں یا ایلوپیتھک یا ٹوٹکے وغیرہ) کیڑے نکالنے کا فائدہ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اِن ادویات سے جسم میں کیڑوں کی افزائش کا ماحول یعنی مریض کا مزاج تبدیل نہیں ہو پاتا۔ ہومیوپیتھک ادویات کلکیریا کارب یا الیو مینا دینے سے بچے مٹی وغیرہ کھانا چھوڑ جاتے ہیں۔ اِن ادویات کی پیٹ کے کیڑوں کے ضمن میں یہ علامات قابلِ غور ہونی چاہئیں کہ کلکیریا کے مریض کا براز ڈھیلا ہوتا ہے اور الیو مینا کے مریض کو ہمیشہ قبض کی شکایت رہتی ہے۔ اِس تشخیص کو پیشِ نظر رکھ کر دوا دینی چاہئے۔
بعض اوقات ان دواؤں ہی سے مزاج بدل جاتے ہیں بشرطیکہ مریض مٹی وغیرہ کھانا چھوڑ دے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ عرصہ بعد مریض پھر سے مٹی کھانے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں مزاج کی تبدیلی کے لئے حسبِ علامت کسی نوزوڈ کی ضرورت لاینفک ہو جاتی ہے۔۔۔ خاص طور پر وہ نوزوڈز جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
ذکر کیڑوں کا ہو رہا تھا مٹی وغیرہ کھانے کی بات بیچ میں آ گئی۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ ایسے بچے یا بڑے جو مٹی وغیرہ کھاتے ہیں اگر اُن بچوں کا موروثی مزاج بدل دیا جائے تو وہ مستقبل میں کئی خبیث، موذی اور خطرناک اَمراض سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
پیٹ کے کیڑوں کو خارج کرنے کے لئے عام اِستعمال کی جانے والی اَدویات مندرجہ ذیل ہیں:
سائنا۔ ٹیوکریم ۔ سنٹونن۔ کلکیریا کارب۔ نیٹرم فاس۔ سٹینم۔ کیوپرم آکس نگx ۳
میرے تجربے کے مطابق کیوپرم آکس نگ تمام قسم کے کِرم (کیڑے) ختم کر دیتی ہے۔ نکس وامیکا ۳۰ کے ساتھ باری باری دینے سے کدو کیڑا تک بھی ختم ہوجاتا ہے۔ مگر اگر کیڑے دوبارہ پیدا ہوجائیں تو پھر حسبِ علامت نوزوڈ کا اِستعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اِس صورتِ حال میں اپنے اعتماد کے ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
No comments:
Post a Comment