Thursday, April 28, 2016

The importance of keynotes of Homeopathic remedies - Urdu




بہت سے نامور ڈاکٹر وں کی کتابیں  زیر مطالعہ رہی ہیں ۔مطالعہ کرنا اچھی بات ہے لیکن ان کی لکھی ہوئی سب باتیں تسلیم کرلینا ضروری نہیں ہوتا۔ خاص طور پر میٹریا میڈیکا ان کے لکھے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ اہم ادویات کے خواص انہوں نے کئی صفحات میں بیان کئے ہیں ۔آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان طول طویل تحریروں کو پڑھ کر آپ کا ذہن الجھ جا تا ہےاور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ان کو یاد رکھا جا سکے ۔ مثال کے طور پر ایک نامور ڈاکٹر کی کتاب میں صرف اکونائٹ دوا کا بیان اٹھایئس صفحات پر مشتمل ہے۔ ایسی اہم ادویات کی تعداد آپ کو معلوم ہے بہت سی ہیں ۔ ان سب کی تمام علاما ت یاد رکھنا ممکن نہیں ۔ غالباً ان صاحبان نے 
  ایک کی لکیر پر کچھ رد و بدل کر کے نئی لکیر مار دی ہے۔  نہ معلوم کیوں؟

ہر دوا کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں  جو یاد بھی رکھی جاسکتی ہیں ۔ مثلاً اکونائٹ کی خصوصیت صرف یہ ہے
علامات اچانک ظاہر ہوتی ہیں اور ان میں بڑی شدت پائی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک مریض کو اچانک سردی لگ جاتی ہے جس کے سبب نزلہ‘کھانسی‘بخار‘پیاس ‘بے چینی ‘درد وغیرہ علامات شدت سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اکونائٹ صحیح دوا ہے۔ اسی طرح صرف درد‘صر ف کھانسی ‘صرف نزلہ مگر کوئی بخار نہیں ۔ اچانک مذکورہ علامات ظاہر ہوتی ہیں  پھر بھی اکونائٹ دوا ہے ۔صرف دوا الفاظ ذہن میں رکھنا کافی ہے --  اچانک‘شدت۔


ہر دوا کی علامات بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ ان میں سچے موتی بھی ہیں اور کم قیمتی موتی بھی۔ ان میں سے سچے موتی نکال کر دماغ کی جیب میں ڈال لیں۔ حسب ضرورت جوہری (مریض ) کو جا کر دیں۔ خوب متاثر ہو کر انہیں قبول کرلے گا۔صحیح پورا پورا معاوضہ دے گا۔ شکریہ بھی ادا کرے گا۔ کم قیمت والے موتی بھی کبھی کبھی کام آ جاتے ہیں۔ سچے موتی آپ دے چکے آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوئی۔ آپ کم قیمت والے موتیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں ان میں قیمت کے لحاظ سےکم و بیش فرق ہے۔ ان میں سے بہتر نکال کر آپ ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ آپ چند مثالوں سےسمجھیں ۔

ایک عورت دس گیارہ ماہ کے بچے کو اٹھائے آپ کے سامنے کرسی پر آ بیٹھتی ہے اور بچہ رونے لگتا ہے ۔عورت کھٹری ہو جاتی ہے بچہ خاموش ہو جاتا ہے ۔اگر آپ کو کیمو ملا کی علامات یاد ہیں تو فورا ذہن میں آئے گی ۔پھر پوچھنے سے معلوم ہو گا کہ بچے کو بڑے بدبودار جلاب آرہے ہیں ۔ کبھی کبھی قے بھی کر دیتا ہے ۔ وہ بھی بد بو دار ۔ضد کرتاہے کہ اٹھائے لئے پھرو۔ دانت بھی نکال رہا ہے ۔

ایک بھاری بھر کم موٹی عورت‘دیہاتی چوہدرانی ہے ‘آ کر شکایت کرتی ہے کہ اس کا ہاضمہ اکثر خراب رہتاہے۔  غذا ہضم نہیں ہوتی۔ کھٹے ڈکار آتے ہیں۔ سینہ جلتا ہے۔ گھبراہٹ ہوتی ہے ۔ اتنی سردی پڑ رہی ہے اور وہ دروازے کھڑکیاں کھول کر سوتی ہے ۔کیا پلساٹلا کی علامات نہیں ؟
زمیندار لوگ ہیں ۔دودھ ‘مکھن ‘گھی کا استعمال زیادہ ہے اس لئے ہاضمہ خراب ہو گیا ۔



ایک تعلیم یافتہ عورت آ پ کے پاس آتی ہے ۔کہتی ہے کہ میں کمزور ہوتی جا رہی ہوں حالانکہ غذا اچھی ہے۔میں گھٹیا عورتوں کی طرح فضول گھٹیا چیزیں نہیں کھاتی ۔ کبھی ٹانگیں سن ہو جاتی ہیں کبھی بازو ۔کبھی سوچتے سوچتے سر سن ہو جاتا ہے اس کے طرز گفتگو سے اخذ کر لیتے ہیں کہ عورت متکبر ہے ‘اپنے آپ کو  بالاتر سمجھتی ہے ۔ اس کا اثر اس کے جسم پرہو رہا ہے ۔ دوا فوراً آپ کے ذہن میں پلاٹینا آنی چاہیے ۔

ایک دبلا پتلا شحض آکر کہتا ہے ‘میری صحت بگڑی جا رہی ہے ۔میں کلرک ہوں فلاں دفتر میں کام کرتا ہوں۔ بلاوجہ میرے افسر مجھ پر برستے رہتے ہیں ۔ میں بول نہیں سکتا ۔ رات دن کڑھتا رہتا ہوں ۔ دوا سٹیفس ہے ۔آپ اس کا پیشہ تو نہیں بدل سکتے۔ نصیحت کر سکتے ہیں کہ کڑھنے سے فائدہ نہیں آپ کا نقصان ہی نقصان ہے ۔پرواہ نہ کیا کریں اور اگر آپ کا مزاج ایسا ہے تو کبھی کبھی یہ دوا لے لیا کریں ۔

مریضہ کہتی ہے  مجھے دردیں ہوتی ہیں ۔کبھی یہاں کبھی وہاں ۔ رات کو تو میں کمرے میں سو نہیں سکتی ۔ درد جہاں بھی ہو رہا ہو زیادہ ہو جاتا ہے ۔ سردی ہے لیکن میں رات کو برآمدے میں جا سوتی ہوں ۔ دوا پلساٹلا میں کو ئی شبہ نہیں ۔

اسی طرح کی علامات مریضہ بیان کرتی ہے۔ کہتی ہے  دردیں ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر اور سردی تو مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتی ۔ دردیں بڑھ جاتی ہیں ۔ زیادہ موسم سرد بھی نہیں مگر میں لحاف لے کر بند کمرے میں سوتی ہوں اس کی دوا سائیکلامن ہے ۔ پلساٹیلا اور سائیکلامن کی علامات ایک جیسی ہیں ۔پہلی کا مزاج گرم ‘کھلی ٹھنڈی ہوا پسند ہے اور دوسری سرد مزاج‘گرمی میں سکون ملتا ہے ۔ 

میکانکی ٹیسٹ بعض مریضوں کے مطلوب ہوتے ہیں لیکن اگر آپ بڑی محنت اور رجوع کریں گے علامات آپ کے دماغ میں عضو  ماؤف کی تصویر کھینچ لیں گی ۔ علامات سن کر آپ کا دماغ کیمرے کا کام کرے گا۔ مرض کی نوعیت صرف فعلی بگاڑ ہے ‘ورم کی کون سی کیفیت ہے ‘ ساخت بگڑ چکی ہے،نوساخت تو نہیں۔ محنت اور رجوع کی ضرورت ہے ۔پھر شاید کبھی کبھی سٹیتھوسکوپ‘ ایکسرے وغیرہ کی ضرورت پڑے گی۔


No comments: