Sunday, May 1, 2016

An introduction to Homeopathic Treatment - ہومیوپیتھی کیا ہے: ایک تعارف




زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء   کب اور کیسے ہوئی اِس سے ہمارے مضمون کا تعلق نہیں۔  ہمارا مضمون علم طب‘یعنی اَمراض اور علاج ِاَمراض ہے؛  اس کی ابتداء  کب اور کیسے ہوئی اور یہ سائنس‘ترقی کرتی ہوئی آج 
کس مقام پر ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟

انسان نے اپنے بارے میں بڑی جستجو کی ہے ،تحقیقات کی ہیں ۔معلوم یہ ہوا ہے کہ انسان ابتدا ء  میں حیوانوں کی طرح غاروں میں اور درختوں پر انفرادی زندگی گزارتا تھا۔پھر رفتہ رفتہ اجتماعی زندگی کا آغاز ہوا۔ اَشیاء کے نام رکھ کر ان کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ اُن کو استعمال میں لا کر ترقی کرتا ہوا تہذیب و تمدن کے دَور میں داخل ہو گیا ۔ اس دَور میں داخل ہو ا تو انسان کی اپنی اپنی اَنا  نے سر بلند کیا اور خود غرضی و خود پسندی نے انسانی زندگی میں وہ طوفان برپا کر دیا کہ آج تک یہ طوفان تھم نہ سکا ۔ "مَیں"اور خود غرضی کے سبب تکبر اور حرص و ہوا نے جنم لیا۔ سر کشی‘ظلم‘ فریب اور مکاری' غضبناکی‘ شہوت جیسے جذبات نے انسان پر غلبہ پا لیا اور ان جذبات نے انسان کے جسم میں تعفن پیدا کر دیا اور اس طرح یہ تعفن بڑھتاچلا گیا۔ بعداَزاں  اِس میں انسان کی جنسی بے راہ رَوی کے سبب آتشک اور سوزاک جیسے موذی اور خبیث مواد کا اضافہ ہو گیا۔ اور رفتہ رفتہ ساری نسلِ اِنسانی نہایت غلیظ اور متعفن مواد سے بھر گئی۔زہریلے مواد نے مختلف اَمراض کی صورت میں ظاہر ہو کر جب انسانوں کی حالت اذیت ناک کر دی تو ان کے علاج کے لئے جستجو ہونے لگی۔

علاج کا سلسلہ جڑی بوٹیوں سے شروع ہوا اور طویل عرصہ کے تجربات کے بعد امراض اور ان کے علاج نے ایک مکمل "علمِ طب " کی حیثیت حاصل کر لی۔ علم طب کا اولین مرکز مصر بنا پھر یونان نے سبقت حاصل کر لی اور آج تک اس کی اہمیت  "یونانی طب"‘کے نام سے موجود ہے۔ یہ طریقہ علاج پھیلتا ہوا  یورپ اور ایشیا  تک جاپہنچا اور آخر کار یورپ نے اس میں خوب ترقی کی اور اس ترقی یافتہ علاج کا نام ایلوپیتھی مشہور ہو گیا۔

 وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی  اور ایلوپیتھی کو میڈیکل سائنس کا درجہ دے دیا گیا اس لئے کہ مریضوں کا علاج سائنٹیفک طریقہ سے ہونے لگا۔ ادویات سائنٹیفک طریقہ سے تیار ہونے لگیں۔ تشخیص بھی سائٹیفک طریقہ سے ہونے لگی۔

عملِ جراحی (سرجری) سے مریضوں کا علاج اَدویات سے علاج کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا ۔ اس کی ترقی 
کی رفتار بھی خاصی تیز تھی۔ جہاں طبیب ہوتے تھے وہاں جراح بھی موجود ہوتے تھے۔۔  اور یہ دونوں شعبے الگ الگ تھے؛ جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں فزیشن اور سرجن الگ الگ ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی ایسا ہوا  جیسا کہ ہمارے ملک (پاکستان) میں ہوتا جا رہا ہے۔

ایلوپیتھی رفتہ رفتہ ترقی کرتی چلی گئی اور یونانی طب کی حیثیت ثانوی رہ گئی۔ لیکن یہ احساس کسی طبیب یا ڈاکٹر میں پیدا  نہ ہوا کہ ان کے طریقہائے علاج سے انسانی نسل کو کتنا نقصان ہو رہا ہے ۔شاید یہ نظامِ فطرت ہے کہ  جب بھی نسلِ انسانی کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے تو قدرت انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا مصلح پیدا کر دیتی ہےجو اسے بالکل تباہ ہونے سے بچا لے ۔چنانچہ پچھلی صدی میں ایک نا مور ایلو پیتھک ڈاکٹر سیموئل ہانیمن میں یہ احساس پیدا ہو ا کہ اَدویات فائدہ سے زیادہ انسان کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے بڑی توجہ اور جستجو کے بعد اس کو یقین ہو گیا کہ انسانیت زیادہ پیچیدہ امراض میں مبتلا ہو رہی ہے جس کا سبب زہریلی ادویات ہیں اور یہ ادویات خود امراض پیدا کرتی ہیں ۔ ملیریا بخار کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ بخار تو اُتر جا تا ہے لیکن بعد میں یہی مریض مختلف امراض لے کر آتے ہیں ۔کوئی کہتا ہے مجھے کمزوری زیادہ ہو گئی ہے ۔ کسی کا سر چکرانا درست نہیں ہوتا ۔ کسی کو بھس ہو گیا
۔ جگر اور تلی بڑھ گئی ہے۔ بھوک ختم ہو گئی ہے ۔ہاضمہ خراب ہو گیا ہے ۔ اسہال ہو گئے ہیں ۔اور ایسی کئی شکایات لے کر جب مریض آنے لگے تو اس نے خود اپنے اوپر تجربہ کیا ۔ کونین‘جس سے ملیر یا کا علاج کیا جاتا تھا عام مستعمل مقدار سے کئی گنا زیادہ مقدار میں وہ نگل گیا۔ تندرست و توانا تھا مگر کونین نے اپنا عمل خوب دکھایا۔ لرزہ سے بخار چڑھنے لگا اور وقفہ دے کر کئی با ر چڑھا۔ بخار ختم ہوا تو یکے بعد دیگرے وہی علامات پیدا ہونے لگیں جو مریض لے کے آتے تھے۔ اس نے سوچا کہ مادی مقدار میں ادویات خود امراض پیدا کرتی ہیں ۔ان کی مادی حیثیت کو کیوں نہ کالعدم کیا جائے اور ان کی توانائی سے کام لیا جائے۔ توانائی حاصل کرنے کا وہی طریقہ اس نے اختیار کیا جو آج بھی رائج ہے۔ اس طرح کئی ادویات کی توانائیوں کو حاصل کر کے اس نے مریضوں کا علاج حسبِ علامات کرنا شروع کیا جو بڑا  کامیاب ثابت ہوا  اور اس نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کا اعلان کردیا ۔ ہانیمن کو بڑ ی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔  اُس نے بڑے دکھ اٹھائے لیکن سب کچھ برداشت کرتے ہوئے حقیقت سے رُوگردانی نہیں کی۔ بڑی سست رفتاری سے یہ طریقہ علاج پھیلنے لگا اور مقبول ہوتے ہوئے اس مقام پر آ پہنچا ہے جو سب کے سامنے ہے ۔

اس حقیقت کی دریافت سے کہ مادی اَشیاء میں توانائی بھی ہے بلکہ مادہ دراصل مظہرِ توانائی ہے ،ثابت ہوتا ہے ۔ موجودہ صدی میں ایٹمی توانائی کی دریافت اس حقیقت پر شاہد ہے ۔

ادویات کی توانائی کو اَمراض میں استعمال کرنے اور ان کے نتائج سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ توانائی مادہ کی ضد ہے  ۔۔ یعنی جو علامات مادی طور پر اَدویہ پیدا کرتی ہیں  ان کی توانائی علامات کو رَفع کر دیتی ہے ۔
ایک حیر ت انگیز انکشاف یہ ہوتا ہے کہ کائنا ت کی ابتدا  رُوح(یعنی توانائی ) کے مادہ میں تبدیل ہونے سے ہوئی اور اب پھر رفتہ رفتہ مادہ  روح میں تبدیل ہو رہا ہے ۔

دریافت و اِنکشاف سے یہ اخذ کر لینا مشکل نہیں ہے کہ مادہ بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اس لئے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ میڈیکل سائنس میں اَمراض کا علاج مادہ کی صورت میں کبھی شافی نہیں ہو سکتا ۔انسان در حقیقت روح ِ اِنسانی کا مظہر ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ بیمار جسم نہیں ہوتا انسان کی ذات بیمار ہوتی ہےاور جسم بیماری کو علامات سے ظاہر کرتا ہے ۔ رُوح کاشافی علاج رُوح ہی سے ہوتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں توانائی کو اَدویات کی توانائی سے تندرست رکھا جا سکتا ہے ۔ اس سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ انسانی ذات اپنے جسم کو خود بیمار کر تی ہے اور نسل در نسل یہ بیماری پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جسموں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے ۔
 
موسم اور وباؤں کے اثرات جسم پر عارضی ہوتے ہیں ۔وہ بھی ان جسموں پر جن کو انسان نے خود کمزور کر دیا ہوتا ہے۔
 
معلوم ہوتا ہے کہ انسانی روح کے کچھ اختیارات ہیں ،کچھ فرائض ہیں اور کچھ ذمہ داریاں ہیں  اور انہیں ادا کرنے کے لئے اسے ایک بہترین اور موزوں ترین ساخت کا جسم دیا گیا ہےکہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال میں اس سے کام لے۔ یہ جسم روح کا قید خانہ نہیں بلکہ اس کا  کارخانہ ہے ۔ اس روح کو اپنی موجودہ کیفیت پر اطمینان نہیں ۔ وہ ارتقا پذیر ہونا چاہتی ہے اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ جسم کے اعضاء کو استعمال کر کے اِرتقا  ء کو حاصل کر لے ۔اس کی ساری کوششیں اور محنتیں حصول ِاِرتقاء میں صرف اسی صورت نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں کہ وہ زمین اور اس کی زندگی کو سکون و آرائش سے مزین کر دے۔ اس کوشش اور محنت میں جو انسان زندگی بسر کرتا ہے  اُس کی روح ارتقاء پذیر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جو اِنسان اس کے لئے کوشش یا محنت نہیں کرتا اس کی روح اِنحطاط پذیر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ہر انسان ذات کی اپنی اپنی اِستعداد ہے جس کے مطابق اس نے کوشش و محنت کرنی ہوتی ہے ۔ جو ذاتِ انسانی اپنی اِستعداد کے مطابق کوشش اور محنت نہیں کرتی اس کا اِرتقاء ممکن نہیں۔  وہ اپنی پہلی حالت میں نادم و پشیمان ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی اس کا انحطاط ہے۔ مرنے کے بعد روحِ انسانی مرتی نہیں  کیونکہ فناو بقاء 
مادے کے لئے ہے روح کے لئے صرف بقاء ہے۔ 

جسم کے مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے ۔ روح کیا ہے ‘کہاں سے آئی‘ یہ مضمون الگ ہے۔  ہمارا موضوع بیمار انسان کو تندرست کرنا ہے اِس لئے ہم اپنی بحث کو یہیں تک محدود رکھتے ہیں۔ آیندہ نشست میں ہم غور کریں گے کہ
اِنسان کے امراض کے اَسباب یا یہ کہ انسان بیمار کیوں ہوتا ہے ؟ 

No comments: