Tuesday, May 3, 2016

ٖہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی خدمت میں چند گذارشات



 فزیشن بننے کے لئے کسی اچھے اِدارے سے سند بھی حاصل کر لی ہوگی  یا آپ عرصہ سے پریکٹس کر رہے ہیں۔  کبھی آپ نے سوچا کہ آپ ہومیوپیتھی کی طرف کیوں راغب ہوئے؟ دراصل انسان جو کام بھی اختیار کرتا ہے وہ مجبورا ًاور اتفاقاً  ہوتا ہےلیکن بعض فن اور پیشے ایسے ہیں جنہیں وہ ارادتاً اختیار کرتا ہے جن میں یہ ڈاکٹری کا پیشہ بھی شامل ہے۔ بہر حال انسان جو کام بھی اختیار کرتاہے  عام الفاظ میں "پیٹ کی خاطر" کرتا ہے۔
اس پیٹ میں ضروریا تِ زندگی کے علاوہ ایک چیز اَور بھی ہےاور وہ ہے" حصولِ لذت"۔  اور یہ ہے وہ اِنسانی خواہش جس نے انسان کو مہذب درندہ بنا  دیا ہے۔ مادہ لذت ہے زیادہ سے زیادہ مال و  دولت جمع کرنے کی خواہش۔ باقی تمام لذتیں اس مال و دولت سے حاصل ہوتی ہیں۔ ایک اِنسان مال و  دولت جمع کرتا ہے تو بہت سے انسان ضروریات ِزندگی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ا یک انسان دوسروں کے لئے وجہ ء محرومی و  اَذیت بنا رہے اس سے زیادہ تذلیلِ اِنسانیت کوئی نہیں۔ایک ڈاکٹر یا  طبیب اگر زیادہ سے زیادہ مال و  دولت حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو یہ اِنتہائی تذلیل اِنسانیت ہے۔

آپ کو ہومیوپیتھک طریقہء علاج موزوں اور بے ضرر اور  شافی طریقہ معلوم ہوا  اِس لئے آپ نے اسے اختیار کیا۔ نیت میں دولت جمع کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ آپ کا مقصد صرف یہ ہے  کہ مریض تندرست ہوں اور ان پر زیادہ خرچے کا بوجھ بھی نہ پڑے یہاں تک کہ ناداروں کا مفت علاج کرنے میں آپ کو مسرت ہو تو یقین رکھیں  کہ قدرت آپ کو ضروریات ِزندگی سے کبھی محروم نہیں ہونے دے گی اور آپ کے ہاتھوں ناقابلِ علاج مریض بھی شفا پائیں گے۔ ہر انسان کے فعل کا نتیجہ کا انحصار اس کی نیت پر ہوتا ہے ۔ 
انسان کی نیت میں فتور پیدا  ہوتا ہے  اور بیماریو ں کی ابتدا   ہو جاتی ہے۔ یہیں سے ہم اپنے مضمون کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ حرص و بخل کے مارے ہوئے انسانوں کی تعداد بہت بھاری کثرت سے غالب ہے ۔ جاہل ہوں یا  تعلیم یافتہ‘ غریب ہوں یا امیر‘ سب کی نیت یا  مزاج حرص و بخیل ہے۔ آپ اَدویات کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ حرص و  بخل کی اَدویہ سلفر ‘پلساٹلا‘ لائیکوپوڈیم اور نکس و امیکا سرفہرست ہیں اور یہ دوائیں آپ روزمرہ کے معمول میں بہت زیادہ  استعمال کرتے ہیں۔ ان دواؤں سے حرص و بخل تو  دور نہیں ہوتا لیکن اس سے پیدا شدہ علاما ت رفع ہو جاتی ہیں۔ یہ کوئی نئی اور عجیب بات نہیں ہے۔ آپ کے مشاہدہ میں ہوگا‘ جذبات کا اثر جسم پر کس طرح ہوتا ہے۔ مثلا ً  رنج و غم‘ غصہ‘   اِنتقام‘ ذہنی صدمہ وغیرہ کے اثرات کا نتیجہ بعض اوقات موت بھی ہو سکتی ہے۔ ذہنی کیفیت کے اثرات جسم پر لازما ً ہوتے ہیں۔ جنسی طور پر انسان اس جذبہ سے مغلوب ہو کر بہت بڑے جُرم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔فعل کا مرتکب انسان ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ فعل جسمانی ہوتی ہے مگر سزا کی اذیت کا احساس انسان کی ذات کو ہوتا ہے۔  یہ مسئلہ بڑا  نازک ہے۔  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیمار تو ظاہراً جسم ہی ہوتا ہے لیکن بیماری کے اثرات کا اِحساس انسانی ذات کو ہوتاہے کیونکہ اس کا سبب انسان کی ذات ہی ہے۔
انسانی ذات کیاہے؟ انسانی ذات ‘روح ِ انسانی ہے۔انسان بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔  بالغ ہو جاتا ہے۔ پھر نصف عمر میں جا کر بڑھاپے کو جا پہنچتا ہے  اور پھر مر جاتا ہے۔ غور کریں یہ ساری کیفیات جسمانی ہیں۔ انسانی ذات نہ بچہ ہوتی ہے؛  نہ بڑی ہو کر بالغ ہوتی ہے۔ نہ بوڑھی ہوتی ہےاور  نہ مرتی ہے۔ انسانی افعال کا نتیجہ انسانی ذات کا عروج و زوال ہوتا ہے۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حیات ِانسانی کا مقصد اس کا  ارتقاء ہے۔ 
خلوصِ نیت سے بیماروں کو بیماریوں کی اذیت سے بچانے والا طبیب یا ڈاکٹر اِنتہائی عروج کا مستحق ہوتا ہے۔ جو انسان دنیا کی لذتوں میں محو  ہو کر مقصد ِحیات کو فرا موش کر دیتا ہے  اس میں اور حیوان میں کیا فرق ہے؟

No comments: