Friday, November 15, 2019

علاج سے پہلے اور علاج کے بعد – سچی کہانی؛ ثمین کی اپنی زبانی

علاج سے پہلے اور علاج کے بعد – سچی کہانی؛ ثمین کی اپنی زبانی



فرش پر بکھری ہوئی چیزیں سعد کو ثمین کی بگڑی حالت کا پتا دے رہی تھیں۔ اس نے نظر اٹھا کر ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھی ہوئی ثمین کو دیکھا اور آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آ گیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اس نے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اپنے قریب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سٹپٹانے لگی اور خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کی تمام تر کوششیں اور چیخیں سعد کی آہنی بازوؤں میں دم توڑ گئیں اور ہمیشہ کی طرح ہار کر اس نے اپنا سر سعد کے سینے پر ٹکا دیا۔ جب وہ اپنے اندر موجود تمام گرد و غبار آنسوؤں کی صورت میں نکال چکی تو سعد نرمی سے اس کا بازو سہلاتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔
” کیا ہوا ہے؟”
ثمین نے جواب دینے کی بجائے نفی میں سر ہلا دیا۔ سعد نے اس کے چہرے پر بکھرے والے بال ہاتھوں سے ہٹائے اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے نرمی سے پوچھنے لگا۔
“ادھر دیکھو میری طرف، مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟”
وہ بدستور خاموش رہی۔ سعد نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور چلتا ہوا بیڈ کے کنارے تک لے آیا۔ اسے بیڈ پر بٹھا کر خود وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
“ثمین
I think you need a doctor.”
ثمین نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور دونوں ہاتھوں میں اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی۔
” ڈاکٹر ۔۔۔۔۔ تو آپ کو بھی لگتا ہے میں پاگل ہو گئی ہوں۔”
“نہیں مجھے ایسا کیوں لگے گا اور کس نے کہا تم سے کہ تم پاگل ہو؟”
وہ جانتا تھا ثمین کو اس بات کے لیے راضی کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ وہ اس کی ذہنی کیفیت سے واقف تھا اس لیے ایسے ہر جواب کے لیے تیار ہو کر آیا تھا۔ وہ اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے پیار سے انہیں سہلانے لگا۔
” سب یہی کہتے ہیں اور اب آپ بھی۔۔۔۔”
وہ بمشکل بس اتنا ہی کہہ سکی اور اس کی آواز دم توڑ گئی۔
” تو کہنے دو سب کو۔ کسی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ کوئی کیا کہتا ہے کیا سمجھتا ہے مجھے پرواہ نہیں ہے اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہیے۔”
” آپ بھی تو یہی سمجھتے ہیں نا؟”
” نہیں، بالکل نہیں۔”
وہ اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اسے سمجھانے لگا۔
” ادھر دیکھو میری طرف، میری بات دھیان سے سنو! تم پاگل نہیں ہو مینٹلی ڈسٹربڈ ہو تمہیں سکون کی ضرورت ہے، علاج کی ضرورت ہے۔ بس اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ تم ڈاکٹر کے پاس چلو تاکہ تمہارا علاج ہو سکے۔”
وہ اسے دلیل سے قائل کرنے لگا لیکن ثمین کسی اور ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی جیسے وہ کچھ سن ہی نہ رہی ہو۔ وہ یونہی ہوا میں گھورتے ہوئے بولی۔
” آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ چلوں تاکہ سب کو یقین ہو جائے کہ میں پاگل ہوں۔”
” نہیں میں چاہتا ہوں کہ تم خوش رہو، ہم دونوں ایک پر سکون اور نارمل زندگی گزاریں پہلے کی طرح۔ دوسروں کی فکر کرنا چھوڑ دو بس اپنے اور میرے بارے میں سوچو، ہمارے بارے میں سوچو۔”
” میں جانتی ہوں آپ میرے ساتھ خوش نہیں ہیں، میں آپ کو خوش نہیں رکھ سکتی، ہے نا؟”
اس کی آنکھوں سے چھلکتا شکوہ اور لہجے میں چھپا دکھ سعد کو غمگین کر گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور پھر سے اسے قائل کرنے لگا۔
” میں تمہارے ساتھ خوش ہوں ثمین۔۔۔ پہلے بھی تھا، اب بھی ہوں اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ خوش رہ سکتے ہیں پہلے کی طرح۔ تم ایک دفعہ میری بات مان لو اپنا علاج کروانے کی حامی بھر لو سب کچھ پہلے کی طرح ہو جائے گا۔”
ثمین نے جواب دینے کی بجائے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا اور پھر سے رونے لگی۔ سعد کافی دیر تک اسے یونہی تکتا رہا پھر کوئی جواب نہ پا کر ایک آخری کوشش کرنے لگا۔
“پلیز ثمین میرے لیے، صرف ایک بار میرے ساتھ چلو۔ میں اس کے بعد تمہیں کبھی فورس نہیں کروں گا۔ اگر تم دوبارہ نہیں جانا چاہو گی تو میں تمہیں نہیں کہوں گا۔ بس ایک بار پلیز میری خاطر۔”
ثمین نے سر ہلا کر اپنی رضامندی ظاہر کی اور اسکے کندھے پر سر ٹکا دیا۔
————————————————————————————————
سعد دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو اس نے ثمین کو آئینے کے سامنے سجتے سنورتے دیکھا۔ نہ صرف وہ مسکرا رہی تھی بلکہ گنگنا بھی رہی تھی۔ سعد کو یاد تھا شادی کے شروع کے دنوں میں ثمین ایسے ہی شوق سے سجا کرتی تھی اور اکثر گنگنایا کرتی تھی۔ اس کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے ثمین مڑی اور سعد کو دیکھتے ہی اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔
“السلام علیکم، آپ آ گئے؟”
ثمین نے اس کے ہاتھ سے کوٹ اور بیگ لیتے ہوئے مسکرا کر اس کا استقبال کیا۔
” آئی ایم سوری میڈم لگتا ہے میں غلط گھر میں آ گیا۔”
ثمین نے نا سمجھنے والے انداز میں سعد کو دیکھا لیکن اس کی آنکھوں سے چھلکنے والی شرارت اور ہونٹوں پر سجی مسکراہٹ کو دیکھ کر اس کے مذاق کو سمجھ گئی اور پیار سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
” جی نہیں آپ بالکل ٹھیک گھر میں آئے ہیں۔”
” تو پھر محترمہ آپ کون ہیں میں نے پہچانا نہیں۔”
ثمین کے خوشگوار موڈ نے اس کے لہجے میں بھی شوخی بھر دی۔
“اتنی خوبصورت لڑکی آپ کی بیوی کے علاوہ اور کون ہو سکتی ہے؟”
اترا کر جواب دیتی ہوئی وہ سعد کو بالکل پہلے والی ثمین لگی۔
” تو پھر وہ کون تھی جو اتنے دنوں سے میرے ساتھ رہ رہی تھی۔”
” تھی کوئی لیکن میں نے اسے بھگا دیا اب کبھی ہمارے درمیان آنے کی جرات نہیں کرے گی۔”
ثمین نے اس کی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے رازدارانہ انداز میں اسے جیسے اطلاع دی۔
” اچھا کیا بھگا دیا مجھے وہ بالکل پسند نہیں تھی اور اب اسے دوبارہ کبھی مت آنے دینا ہمارے درمیان۔”
“اوں ہوں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
ثمین کی یقین دہانی نے سعد کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کو مزید گہرا کر دیا۔
” تھینک یو، تھینک یو ویری مچ اس لڑکی کو بھگانے کے لیے اور مجھے میری ثمین واپس کرنے کے لیے۔”
” تھینکس ٹو یو ۔۔۔۔۔۔ اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دینے اور مجھے زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے۔”
” مائی پلئیر میم ویسے بھی آپ کو پتا ہے نا خوبصورت لڑکیوں کی مدد کے لیے میں ہر دم تیار رہتا ہوں۔”
سعد نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھک کر کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور ہنستی چلی گئی۔
” تمہیں اندازہ نہیں ہے ثمین میں کتنا خوش ہوں تمہیں خوش دیکھ کر میرے کان ترس گئے تھے تمہاری اس ہنسی کی آواز کے لیے۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا۔ پلیز اب ہمیشہ ایسے ہی رہنا۔”
” یقین کر لیں اب میں ایسے ہی رہوں گی ہمیشہ کیونکہ میں اب خوش رہنا چاہتی ہوں۔ پتا ہے سعد میرا دل کرتا ہے میں وہ سب کچھ کروں جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔”
” اچھا اور وہ سب کچھ کیا ہے مجھے بھی تو پتا چلے؟”
سعد نے اس کی خوشی سے محظوظ ہوتے ہوئے اسے چھیڑا۔
” سب کچھ جیسے آپ کو تنگ کرنا، الٹی سیدھی فرمائیشیں کرنا، نخرے اٹھوانا، آپ کے ساتھ گھومنا پھرنا، شاپنگ کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔”
ثمین نے اپنی انگلیوں پر ایسے ایک ایک چیز گنوائی جیسے بہت ہی ضروری لسٹ ہو۔
” ویسے میں سوچ رہا تھا کہ تم پہلے ہی ٹھیک تھی کم از کم یہ سب تو نہیں کرنا پڑتا مجھے۔”
” تو جناب کس نے کہا تھا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لیے اور اب جب مار لی ہے تو بھگتیں۔”
ثمین نے کندھے اچکا کر اسے جیسے الٹی میٹم دیا۔
” ہم تو ساری عمر بھگتنے کے لیے تیار ہیں میڈم آپ موقع تو دیں۔”
اس نے شرارت سے ثمین کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ شرما گئی۔ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والی شوخی ثمین کے چہرے پر کئی رنگ بکھیر گئی۔ اسے بہکتا دیکھ وہ اسے پرے دھکیلتے ہوئے باہر نکل گئی اور وہ کتنی دیر یونہی کھڑا مسکرا کر اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہا۔

Related Posts









علاج سے پہلے اور علاج کے بعد – سچی کہانی؛ ثمین کی اپنی زبانی




No comments: