ایک بے قرار جسم و روح کی کہانی؛ اُس کی ماں کی زبانی
میرا بیٹا شروع سے ہی بہت ایکٹو تھا ۔۔۔۔ ہر وقت کھیل کود کے لیے تیار ۔۔۔۔ ذہین ۔۔۔ اور شرارتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی چستی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا اور میری توقعات میں بھی ۔۔۔۔۔ تھوڑا بڑا ہوا تو ایک اچھے سکول میں داخل کروایا لیکن سکول سے آ کر بھی اس میں تھکاوٹ کے ذرا سے آثار بھی نظر نہیں آتے تھے ۔۔۔۔ نیند کم ہوتی جا رہی تھی اور میرے خیالات بھی تبدیل ہو رہے تھے۔ جس کو مَیں چستی سمجھتی تھی وہ دراصل بے چینی تھی۔ مسلسل کھیلنا اور بے تکان کھیلتے چلے جانا اور اگر کوئی کھیلنے والا نہیں ہے تو سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہنا۔ وہ باقی بچوں کی طرح ایک جگہ بیٹھ کے ٹی وی وغیرہ نہیں دیکھتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ سکول میٹنگ میں بتایا جاتا کہ پڑھائی کی طرف دھیان ہی نہیں ہے اور مجھے یہ بات پہلے ہی سے معلوم ہوتی۔ پڑھائی پر دھیان تو بہت دور کی بات تھی، وہ تو میری بات بھی دھیان سے نہیں سنتا تھا۔ جب کبھی اسے کسی پارک یا کھلی جگہ لے جاتی، وہ بے تحاشا بھاگتا تھا اور باقی بچوں کی طرح تھکتا نہیں تھا۔
وقت گزرتا رہا ۔۔۔۔۔ مسائل بڑھتے رہے ۔۔۔۔ اب وہ ایک ضدی اور ڈھیٹ بچہ بنتا جا رہا تھا جس پر میرے پیار، نصیحت حتیٰ کہ مار تک کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ سکول سے شکایات کا مسلسل سلسلہ الگ جاری تھا ۔۔۔ پھر میں نے میٹنگ میں جانا ہی چھوڑ دیا مگر بیٹے کو اُس کے حال پر چھوڑنا تو ممکن نہ تھا۔ میں نے اسے خود پڑھانے کی بہت کوشش کی اگرچہ اُس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سختی بھی بہت کی اور پیار بھی۔ وقت کے ساتھ مجھے ادراک ہونے لگا کہ وہ ایسا جان بوجھ کے نہیں کر رہا۔ کسی کام کو توجہ دینا اس کے بس میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔ سب کو لگتا تھا ماں کا بگاڑا ہوا بچہ ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ ہمارے ہاں سوچا جاتا ہے کہ ماں کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے۔
اسے ہر وقت جلدی ہوتی تھی ۔۔۔۔ جیسے کہیں جانا ہے ۔۔۔۔ گھر میں رہنا تو بالکل نہیں پسند تھا ۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہو رہا تھا اس کی شخصیت کے نئے پہلو سامنے آ رہے تھے ۔۔۔ اور میرے اندر کہیں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔
دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس میں خود اعتمادی بالکل نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔ کھیل کے دوران لڑائی میں یہ اپنا مؤقف بیان نہیں کر پاتا تھا بلکہ غصے سے لال ہو جاتا تھا۔ مٹھیاں بند کر لیتا ۔۔۔ لیکن کوئی جواب نہیں دے پاتا تھا۔۔۔ گیم کے اصول و ضوابط اس کی سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔۔۔۔ لکھنے پڑھنے میں صورتحال انتہائی خراب تھی ۔۔۔۔ اس کا جتنا وقت میرے ساتھ گزرتا، کسی بے جا ضد اور فرمائشوں میں ہی گزرتا ۔۔۔۔ وہ کسی بھی چیز پہ مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ جو ملے اس سے بہتر کی ضد کرتا ۔۔۔۔ کھلونوں سے بہت جلدی اکتا جاتا تھا۔ ہر چیز کو کھولنا، ادھیڑنا اور پھر بنانے کی ناکام کوشش اس کا مشغلہ تھا ۔۔۔۔ میں اس کو پیار سے سمجھانے کی بہت کوشش کرتی تھی لیکن ایسا لگتا تھا کہ میں دیوار سے بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں بے حد تکلیف دہ بلکہ کربناک تھیں۔
دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس میں خود اعتمادی بالکل نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔ کھیل کے دوران لڑائی میں یہ اپنا مؤقف بیان نہیں کر پاتا تھا بلکہ غصے سے لال ہو جاتا تھا۔ مٹھیاں بند کر لیتا ۔۔۔ لیکن کوئی جواب نہیں دے پاتا تھا۔۔۔ گیم کے اصول و ضوابط اس کی سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔۔۔۔ لکھنے پڑھنے میں صورتحال انتہائی خراب تھی ۔۔۔۔ اس کا جتنا وقت میرے ساتھ گزرتا، کسی بے جا ضد اور فرمائشوں میں ہی گزرتا ۔۔۔۔ وہ کسی بھی چیز پہ مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ جو ملے اس سے بہتر کی ضد کرتا ۔۔۔۔ کھلونوں سے بہت جلدی اکتا جاتا تھا۔ ہر چیز کو کھولنا، ادھیڑنا اور پھر بنانے کی ناکام کوشش اس کا مشغلہ تھا ۔۔۔۔ میں اس کو پیار سے سمجھانے کی بہت کوشش کرتی تھی لیکن ایسا لگتا تھا کہ میں دیوار سے بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں بے حد تکلیف دہ بلکہ کربناک تھیں۔
موسم اس پر بہت اثرانداز ہوتا؛ بارش بادل تیز ہوا اسے بہت پرجوش کر دیتے۔ اس بارش میں نہانا بہت پسند تھا ۔۔۔ ہم تم ہوں گے بادل ہو گا رقص میں سارا جنگل ہو گا؛ والی کیفیت ہی سمجھئے۔ اسے واٹر گنز کے ساتھ کھیلنا، بھیگنا اور بھاگنا پسند تھا۔
ڈھول کی آواز اسے بہت پر جوش کر دیتی تھی ۔۔۔ بھنگڑا ڈالنے کے لیے بے چین ہو جاتا ۔۔۔۔ اور بھنگڑا ڈال کے بے حد مسرور ہو جاتا کہ جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ ہاتھ آ گیا ہو۔
ڈھول کی آواز اسے بہت پر جوش کر دیتی تھی ۔۔۔ بھنگڑا ڈالنے کے لیے بے چین ہو جاتا ۔۔۔۔ اور بھنگڑا ڈال کے بے حد مسرور ہو جاتا کہ جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ ہاتھ آ گیا ہو۔
عمر بڑھنے کے ساتھ مسائل میں مزید اضافہ ہوا۔
عجیب و غریب وہم، ڈر، خوف اور فوبیاز (Fear and Phobias) شروع ہو گئے۔ ان میں ناپاکی یا ٹچ (Touch) کا وہم سرِفہرست تھا اور تھا بھی بہت پریشان کن ۔۔۔ اسے وہم ہوتا کہ وہ ناپاک ہو گیا ہے ۔۔۔ دن میں آٹھ دس بار کپڑے بدلتا لیکن وہم تھا کہ ختم ہی نہ ہو پاتا۔ بار بار ہاتھ دھوتا (OCD – Obsessive-Compulsive Disorder) ۔۔۔۔ آخرت اور قیامت کا خوف بھی اس کے سر پر سوار تھا ۔۔۔ کہ اگر اس نے کچھ غلط کیا تو سخت سزا ملے گی۔ عظیم مذہبی ہستیوں کے متعلق پریشان کر دینے والے خیالات آتے اور پھر بہت دکھ ہوتا کہ ان خیالات کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ سیکس (Sex) سے متعلق الٹی سیدھی باتیں اس کے دماغ میں جگہ بنا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ ایک ہی بات کو بار بار دہراتا تھا۔ ایک ہی سوال بار بار پوچھتا بلکہ پوچھتا ہی چلا جاتا۔ ان حالات میں پڑھائی کا تصور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
عجیب و غریب وہم، ڈر، خوف اور فوبیاز (Fear and Phobias) شروع ہو گئے۔ ان میں ناپاکی یا ٹچ (Touch) کا وہم سرِفہرست تھا اور تھا بھی بہت پریشان کن ۔۔۔ اسے وہم ہوتا کہ وہ ناپاک ہو گیا ہے ۔۔۔ دن میں آٹھ دس بار کپڑے بدلتا لیکن وہم تھا کہ ختم ہی نہ ہو پاتا۔ بار بار ہاتھ دھوتا (OCD – Obsessive-Compulsive Disorder) ۔۔۔۔ آخرت اور قیامت کا خوف بھی اس کے سر پر سوار تھا ۔۔۔ کہ اگر اس نے کچھ غلط کیا تو سخت سزا ملے گی۔ عظیم مذہبی ہستیوں کے متعلق پریشان کر دینے والے خیالات آتے اور پھر بہت دکھ ہوتا کہ ان خیالات کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ سیکس (Sex) سے متعلق الٹی سیدھی باتیں اس کے دماغ میں جگہ بنا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ ایک ہی بات کو بار بار دہراتا تھا۔ ایک ہی سوال بار بار پوچھتا بلکہ پوچھتا ہی چلا جاتا۔ ان حالات میں پڑھائی کا تصور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
بارہ سال کا ہو گیا تھا اور مسائل بڑھنے کا تناسب عمر کی نسبت بہت زیادہ تھا۔۔۔ وہ لوگوں سے ملنے سے گھبرانے لگا۔ دوسروں بچوں کی موجودگی میں اس میں اور باقی بچوں میں واضح فرق نظر آنے لگا ۔۔۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتے رہنا، اپنے کپڑوں کو بار بار پکڑتے رہنا (Lack of Confidence) ۔۔۔ اور خالی خالی آنکھوں سے دیکھتے رہنا ۔۔۔۔ کرکٹ شروع سے ہی پسند تھی لیکن اب وہ اس کے متعلق جنونی ہو گیا تھا۔ سارا دن مسلسل کھیلتا تھا۔ تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ پھر وہ گھبراہٹ کی شکایت بہت زیادہ کرنے لگا ۔۔۔۔ اس دوران مختلف ٹاپ لیول ڈاکٹرز (Top Doctors)، بہترین چائلڈ سپیشلسٹ (Best Child Specialist)، سائیکالوجسٹ (Psychologist) اور ہومیوپیتھک (Homeopathic) کو دکھاتے رہے لیکن بے سود بلکہ مسائل بڑھتے ہی چلے گئے۔ یہ بہت کمزور ہو گیا ۔۔۔۔۔ بلکہ لاغر کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔
ایک مشہور سائیکاٹرسٹ (Psychiatrist) سے ٹائم لیا ۔۔۔۔۔۔ اور صورتحال یہ تھی کہ مجھے اسے وہیل چیئر پہ لے جانا پڑا۔ میں اسے وہیل چیئر پر لے جا رہی تھی مگر میرا سارا وجود بکھرا ہوا تھا۔۔۔۔ بس یوں سمجھئے کہ میں بھی وہیل چیئر پر تھی ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے میری بارہ سال کی روداد صرف پانچ منٹ میں “سن، سمجھ” لی اور گولیوں سے بھرا نسخہ تھما دیا۔ دوائی شروع کی۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ سونے لگا اور صحت بہتر ہونے لگی۔ مگر یہ ایسے رہتا تھا جیسے نشے میں ہو ۔۔۔ شروع میں لگا سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن گزرتے وقت نے احساس دلایا کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ ایسے ہی رہتا تھا جیسے نشے میں دھت ہو۔ پڑھائی بالکل صفر تھی۔ ہم شاید یہ علاج جاری رکھتے لیکن ۔۔۔۔۔۔
اور ایک اَور امتحان میرا منتظر تھا۔ ان دوائیوں نے جگر پر بہت برا اثر ڈالا۔ اس کی رپورٹس بری طرح بگڑ گئی تھیں۔ انہی ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو پتہ چلا کہ یہ ان کی دوائیوں کا اثر تھا۔ سو دوائیں فی الحال روک دی جائیں ۔۔۔۔۔۔ اس کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ بستر پر بے سدھ پڑا تھا۔ میں اس قدر شدید بے بسی کا شکار تھی ۔۔۔۔۔ کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ یرقان کا علاج کروایا ۔۔۔۔۔ رپورٹس نارمل ہوئی ۔۔۔۔ لگا سب ٹھیک ہے لیکن اصل آزمائش تو اب شروع ہونی تھی ۔۔۔۔ اس کے سارے ذہنی مسائل بے حد شدت سے واپس آئے ۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک اَور امتحان میرا منتظر تھا۔ ان دوائیوں نے جگر پر بہت برا اثر ڈالا۔ اس کی رپورٹس بری طرح بگڑ گئی تھیں۔ انہی ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو پتہ چلا کہ یہ ان کی دوائیوں کا اثر تھا۔ سو دوائیں فی الحال روک دی جائیں ۔۔۔۔۔۔ اس کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ بستر پر بے سدھ پڑا تھا۔ میں اس قدر شدید بے بسی کا شکار تھی ۔۔۔۔۔ کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ یرقان کا علاج کروایا ۔۔۔۔۔ رپورٹس نارمل ہوئی ۔۔۔۔ لگا سب ٹھیک ہے لیکن اصل آزمائش تو اب شروع ہونی تھی ۔۔۔۔ اس کے سارے ذہنی مسائل بے حد شدت سے واپس آئے ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے نہانا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ذاتی صفائی سے شدید بیزاری ۔۔۔۔۔۔ ناپاکی کا ہر پل وہم ۔۔۔۔۔۔ اسے لگتا تھا جیسے ارد گرد کے لوگ حتٰی کہ ٹی وی اور کارٹون میں نظر آنے والے بھی برہنہ اور ننگے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سیکس سے متعلق عجیب اور غلط تصورات ۔۔۔۔۔۔۔ ہر وقت کی بے جا ضد ۔۔۔۔ شدید چڑچڑاپن ۔۔۔۔۔۔۔ مسلسل نت نئی فرمائشیں ۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر الم ناک بات تھی مجھے یعنی اپنی والدہ کو قتل کرنے کی خواہش ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتا تھا ۔۔۔۔۔۔ “میں ایسا نہیں چاہتا لیکن میرا دماغ کہتا ہے کہ میں آپ کو قتل کر دوں ۔۔۔۔۔ میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔ لیکن میرا دماغ میرے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اگر میں آپ کو مارنے کی کوشش کروں تو مجھے روک لینا۔۔۔” دل اور دماغ کی مسلسل کشمکش اور مستقل جنگ اُس کے اندر جاری تھی۔
اب وہ تیرہ سال کا ہو گیا تھا ۔۔۔ اور اپنا کوئی کام خود نہیں کرتا تھا۔ جوتوں کے تسمے نہیں باندھ سکتا تھا۔ راہ چلتے کسی نہ کسی سے ٹکرا جاتا۔ کسی بھی کام پر فوکس نہیں کر سکتا تھا۔۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔۔۔۔۔ پھر ایک نیا مسئلہ شروع ہو گیا ۔۔۔ اس نے مجھ سے اور باقی گھر والوں سے دور رہنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ بقول اس کے کہ کسی کو بھی ٹچ کرنے سے اس کا دل شدید گھبراتا ہے اور طبیعت خراب ہوتی ہے ۔۔۔۔ وہ اپنی ساری باتیں صرف مجھ سے شیئر کرتا تھا ۔۔۔۔۔ اب وہ کسی کے قریب نہیں جاتا تھا۔ مجھے چاقو چھرے کے وار کر کے مارنے کے پلان سوچتا تھا ۔۔۔۔ الٹی سیدھی باتیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔ سارا دن کرکٹ کھیلتا تھا کہ کھیلنے کے دوران اس کی سوچوں کی یلغار کی شدت قابلِ برداشت حد تک کنٹرول ہو جایا کرتی تھی۔
اور اس ساری صورتحال میں میری حالت جل بن مچھلی جیسی تھی ۔۔۔ کسی ڈاکٹر پہ جا نہیں سکتی تھی کہ سب کچھ آزمایا جا چکا تھا ۔۔۔۔ ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، سائکالوجی ڈاکٹر بھی ناکام ہو چکے تھے۔ بس اللّٰہ کے آگے رونا بلکنا ۔۔۔۔۔ اور نیٹ پر مسلسل کوئی حل یا ماہرِ نفسیات تلاش کرنا ۔۔۔۔۔۔ لیکن سب ماہر دوائیں دیتے تھے اور یہ تجربہ بھی تو میں کر ہی چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ رات بہت تکلیف دہ تھی۔ ساری رات گڑگڑاتی رہی تھی کہ میں کیا کروں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں اس کے علاوہ اَور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا کہ اس کو دوبارہ دوائیں دیں مگر بعد کی صورتحال کا تصور ہی بہت بھیانک تھا۔۔۔۔۔۔ صبح صبح پھر انٹرنیٹ تھا اور میں ۔۔۔۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور دل میں فریاد بھری دعائیں ۔۔۔۔ پچھلے کچھ دنوں سے کافی ڈاکٹرز کو دیکھ پڑھ رہی تھی جن میں ایک نام ڈاکٹر حسین قیصرانی کا تھا ۔۔۔۔ یہ پیج باقیوں سے مختلف تھا ۔۔۔۔۔
سائیکوتھراپسٹ ۔۔۔ ہومیوپیتھی ۔۔۔۔ (Healing with Science and a TOUCH of Art) اسی خوبصورت امتزاج کی مجھے تلاش تھی ۔۔۔
سائیکوتھراپسٹ ۔۔۔ ہومیوپیتھی ۔۔۔۔ (Healing with Science and a TOUCH of Art) اسی خوبصورت امتزاج کی مجھے تلاش تھی ۔۔۔
بہت ہی صبح کا وقت تھا اور اتوار کا دن ۔۔۔۔۔۔ لیکن ان دنوں مجھے وقت اور دنوں کا احساس ہی کہاں تھا۔ میں نے ڈاکٹر حسین قیصرانی کا نمبر ڈائل کر دیا ۔۔۔۔۔ میرا خیال تھا ان کا سیکرٹری ہو گا جس سے مَیں وقت لوں گی لیکن ۔۔۔ غیر متوقع طور پر ڈاکٹر صاحب نے کال خود اٹینڈ کی ۔۔۔۔ مَیں نے ہچکچاتے ہوئے بات کی ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے بے حد تحمل سے میرا مسئلہ سنا اور تقریباً اتوار کا سارا دن میرے ساتھ رابطے میں رہے۔ بیٹے کی مکمل ہسٹری لی جو گھنٹوں پر محیط تھی۔ اس وقت میں ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب تھی سو معلوم نہیں کہ کیا کچھ بولا اور سنا لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ کسی ایک لمحے بھی مجھے ایسا تاثر نہیں ملا کہ وہ تھک گئے ہیں یا اکتا رہے ہیں۔ بیٹے کی مکمل ہسٹری سے اُن کا اطمینان نہیں ہوا کہ معاملہ بہت گہرا تھا سو بیٹے کے ماں باپ، نانا نانی اور دادا دادی تک کی زندگی اور بیماریوں کو کھنگالا ۔۔۔۔ کہنے لگے شفا دینے والی اللہ کریم کی ذات ہے؛ جہاں تک میرا کام ہے مجھے کیس سمجھ آ گیا ہے۔ سارے دن کی مستقل محنت کے باوجود انہوں نے ذرہ بھی کوشش نہیں کی کہ میں اُن سے علاج کرواؤں۔ کہنے لگے کہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کیوںکہ علاج کے دوران کافی مسائل بھی آ سکتے ہیں۔
بے شک اللّٰہ بے حد مہربان ہے اور اُس نے ہی راستے دکھانے ہوتے ہیں۔ میں نے علاج کا فیصلہ کیا اور فیس بھیجنے سے پہلے ہی دوائی مجھ تک پہنچ چکی تھی۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کے بیٹے کا علاج ایسے ہی کروں گا جیسے وہ میرا بیٹا ہے ۔۔۔ اور انہوں نے واقعی ایسا کر کے بھی دکھایا ۔۔۔۔ شاید ہی کوئی دن گزرا ہو کہ جب انہوں نے بیٹے کی صورتِ حال پر بات چیت نہ کی ہو — چاہے چھٹی ہو، عید ہو یا وہ سفر میں ہوں۔ جی ہاں! یہ ناقابلِ یقین بات ہے مگر حقیقت یہی ہے۔
سب سے پہلے میرے بیٹے کی نیند بہتر ہوئی۔ وہ سکون سے سونے لگا۔ علاج کے تیسرے دن اُس نے پہلی بار یہ کہا کہ میں خوش ہو رہا ہوں تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اُس کے دل، دماغ اور روح میں چین سکون کا احساس نمایاں ہوا تو مجھے بھی سکون و اطمینان کے لمحات میسر آئے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب عارضی تھا۔ علاج کے دوران یہ بات قابلِ ذکر رہی جو مسائل غیر واضح اور مبہم تھے وہ کھل کر سامنے آئے ۔۔۔ کبھی کبھی میں گھبرا جاتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے میرا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا ۔۔۔۔ میرے بیٹے کے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی دوائی بھیج دیتے تاکہ میری ذہنی حالت ٹھیک رہے ۔۔۔
علاج کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہے ۔۔۔۔ بیٹے کی طبیعت میں مسلسل ایک تغیر تھا ۔۔۔۔ اور ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ بہت ضروری تھا ۔۔۔۔ اس دوران دوائی کی مقدار بہت کم رہی بلکہ کبھی کبھی تو نہ ہونے کے برابر۔۔۔۔۔۔ ہر طرح کی صورتحال میں ڈاکٹر صاحب ہمہ وقت رابطے میں رہے اور ایک فیملی ممبر کی طرح ہماری مشکلات کو حل کرنے میں بھر پور تعاون کیا۔
چند دن کی سخت تکالیف کے بعد بیٹے میں بہتری کے رجحان پیدا ہو رہے تھے ۔۔۔۔ اس نے فضول باتیں کرنا کافی کم کر دیں ۔۔۔۔ ناپاکی کا وہم وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے لگا ۔۔۔۔ اب وہ کبھی کبھی نہانے بھی لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے قتل کرنے کی خواہش کم ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔ گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا ۔۔۔۔ باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔ کرکٹ کا جنون کم ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ چڑچڑاپن تو بالکل ہی ختم ہو گیا تھا ۔۔۔۔ اب وہ سمجھ دار بچوں والے سوال کرنے لگا تھا ۔۔۔ ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ لائف انشورنس کیا ہوتا ہے؟ …. میں بہت خوش ہوئی ۔۔۔۔۔ اس کو انشورنس کے بارے میں بتایا ۔۔۔ اور اس دوران دل میں اللّٰہ کا شکر ادا کرتی رہی ۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ مزید بہتری آنے لگی ۔۔۔۔ اس نے بے جا فرمائشیں کرنی چھوڑ دیں ۔۔۔۔ اب صرف چھٹی والے دن کرکٹ کھیلنے جانے لگا۔ فضول باتیں کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔ اور بالآخر مجھے قتل کرنے کا خیال بھی اس کے اس ذہن سے جاتا رہا ۔۔۔۔ الحمد للہ!
چند دن پہلے وہ اپنے کزنز کے ساتھ موٹر سائیکل پہ آیا وہ ٹوٹل چار تھے ۔۔۔۔ میں بہت حیران تھی ۔۔۔۔۔ وہ بالکل نارمل تھا اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ یہ بظاہر عام سی بات تھی لیکن میرے لیے بہت ہی اہم تھی ۔۔۔۔ جو بچہ کسی کو ہاتھ لگانے سے بھی گھبراتا ہو اور اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہو اس کا بائیک پہ تین لوگوں کے ساتھ بیٹھ کے آنا بہت بڑی بات تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ٹھیک تھا اور خوش بھی۔
اس کے اور ہمارے بیچ فاصلے کم ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ پڑھائی میں کوئی خاص بہتری اب بھی نہیں ہے لیکن ڈاکٹر حسین قیصرانی سے تین ماہ علاج کے بعد اب اسے فکر ہونے لگی ہے کہ مجھے پڑھنا چاہیے ۔۔۔ یہ تبدیلی ہمارے لئے بہت ہی خوشی کا باعث ہے ۔۔۔۔۔ وہ لوگوں سے ملنے لگا ہے ۔۔۔۔ اب وہ بار بار کپڑے نہیں بدلتا بلکہ اب تو خود بھی کہہ دیتا ہے کہ مَیں نہا لوں ۔۔۔۔۔ بظاہر یہ ساری باتیں کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں لیکن میرے اور میری فیملی کے لیے یہ ایک سنگِ میل کی طرح ہیں ۔۔
چند دن پہلے وہ اپنے کزنز کے ساتھ موٹر سائیکل پہ آیا وہ ٹوٹل چار تھے ۔۔۔۔ میں بہت حیران تھی ۔۔۔۔۔ وہ بالکل نارمل تھا اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ یہ بظاہر عام سی بات تھی لیکن میرے لیے بہت ہی اہم تھی ۔۔۔۔ جو بچہ کسی کو ہاتھ لگانے سے بھی گھبراتا ہو اور اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہو اس کا بائیک پہ تین لوگوں کے ساتھ بیٹھ کے آنا بہت بڑی بات تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ٹھیک تھا اور خوش بھی۔
اس کے اور ہمارے بیچ فاصلے کم ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ پڑھائی میں کوئی خاص بہتری اب بھی نہیں ہے لیکن ڈاکٹر حسین قیصرانی سے تین ماہ علاج کے بعد اب اسے فکر ہونے لگی ہے کہ مجھے پڑھنا چاہیے ۔۔۔ یہ تبدیلی ہمارے لئے بہت ہی خوشی کا باعث ہے ۔۔۔۔۔ وہ لوگوں سے ملنے لگا ہے ۔۔۔۔ اب وہ بار بار کپڑے نہیں بدلتا بلکہ اب تو خود بھی کہہ دیتا ہے کہ مَیں نہا لوں ۔۔۔۔۔ بظاہر یہ ساری باتیں کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں لیکن میرے اور میری فیملی کے لیے یہ ایک سنگِ میل کی طرح ہیں ۔۔
الحمد للہ! میرے بیٹے کو نئی زندگی ملی اس کی سوچ میں ٹھہراؤ آ رہا ہے۔۔۔ اس کے چہرے پہ شگفتگی اور رونق واضح آنے لگی ہے ۔۔۔۔۔ ابھی اس کا علاج جاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی آئندہ زندگی پہلے سے کہیں بہتر ہوگی، اِن شاء اللہ۔ اس سارے عمل میں ڈاکٹر حسین قیصرانی کا کردار ۔۔۔۔۔ ہمارے لئے شادمانی و مسرت کا باعث اور نا قابل فراموش رہے گا۔ وہ ہمیشہ ہماری دعاؤں کا حصہ رہیں گے ۔۔۔۔
—– علاج اور کیس کی مزید تفصیلات اور ہومیوپیتھک دواؤں کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو کلک فرمائیں – حسین قیصرانی —–
Related Posts
یک بے قرار جسم و روح کی کہانی؛ اُس کی ماں کی زبانی
No comments:
Post a Comment